ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
آیا اور حضرت حبیب کے پاس اُن کے خیمہ میں داخل ہوگیا''۔ ادب ٥ : ولا یتکّلف بالسجع فورد ایّاکم والسّجع فی الدّعائِ۔ (عین العلم ) ''اور دعاء میں بتکلف قافیہ بندی کی کوشش نہ کرے کیونکہ حدیث شریف میں وارد ہو اہے کہ دعاء میں قافیہ بندی سے بچو''۔ تشریح : دُعاء میں تصنع ،تکلف اور الفاظ کی زیبائش وآرائش کا لحاظ نہ خیال کیا جائے ۔ الفاظ کی قافیہ بندی کی طرف ذہن کو متوجہ کرنے سے اُس کے مفہوم و معانی کی طرف توجہ میں خلل پیدا ہوگا اور دُعاء میں انہماک باقی نہ رہ سکے گا۔ چنانچہ زین الحلم شرح عین العلم ص ١٠٤ ج١ میں ملا علی قاری فرماتے ہیں : ولا یتکلّف بالسّجع فی الدّعائِ فانّ حال الدّاعی ان یّکون حال متضرعٍ والتکلّف لاینا سبہ۔ دعا میں قافیہ بندی کا تکلف نہ کرے اس لیے کہ دعا مانگنے والے کی حالت تضرع کرنے والے کی طرح ہو اور تکلف اس کے مناسب ِحال نہیں ۔ اور بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے : وانظر السجع من الدّعائِ فاجتنبہ فانّی عھدتّ رسول اللّٰہ ۖ واصحابہ لا یفعلون۔ ''دعاء میں قافیہ بندی سے پرہیز کرو کیونکہ آنحضرت ۖ کا اور آپ کے صحابۂ کرام کا یہ طرزِ عمل نہ تھا''۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ دعاء کرتے وقت اگر ذوق ِطبعی سے زبان پر بلا تکلف کلمات ِدعائیہ موزو نہ جاری ہو جائیں تو اس میں کوئی باک نہیں ،چنانچہ سرور ِ کائنات ۖ کی بعض دعائوں میں کلمات موزونہ منقول ومأثور ہیں لیکن ان دعائوں میں قافیہ بندی کا قصد نہیں کیا گیا ،چنانچہ حضرت ملاعلی قاری زین الحلم شرح عین العلم ص١٠٤، ج١ میں فرماتے ہیں : ثم المنع انّما ھو التکلّف فی السجع بخلاف مااذا ورد علٰی مقتضے الطبع ففی الادعیة الماثورة علٰی لسان صاحب الشرع جائَ ت کلماتٍ متوازنةٍ مؤتلفةٍ الا