ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
حرف آغاز نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم امابعد ! چند برسوں سے حکومتوںکی جانب سے مدارس کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیوں کا جو سلسلہ جاری تھا،اب چند ماہ سے چھاپوں کی شکل میں عملی صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ملک کے مختلف شہروں کے دینی مدارس پر چھاپوں کے دوران فوجی حکمرانوں کو اللہ کے فضل سے بجز ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اس کے باوجود فوجی حکمران اُن پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات لگاتے چلے جارہے ہیں۔ حال ہی میں فیصل آباد کے ایک مدرسہ سے وہاں کے مدرس قاری نور محمد صاحب کو پولیس بلا کسی جواز کے اُٹھالے گئی اور اُن پر اتنا تشدد کیا کہ وہ جام ِشہادت نوش کرگئے ۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اُن کے جسم پر تشدد کے ٢٨٠ نشانات پائے گئے ۔حکمرانوں کے زیرِ سایہ ریاستی دہشت گردی کی یہ بد ترین مثال ہے پورا ملک پولیس گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے اورمظلوم کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ اسلام آباد کے دینی مدارس کے خلاف بھی حکمران گزشتہ ایک دوماہ سے خاصے سرگرم ہیں، آئے دن مدارس پر چھاپہ مار کارروائیاں عروج پر ہیں۔ حد تویہ کہ دینی طالبات کے مدرسہ پر چھاپہ ماراگیا اور دور دراز سے دینی علوم حاصل کرنے کے لیے آنے والی پُرامن طالبات کو بھی دہشت زدہ کیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ کس لیے اور کس کے ایماء پر کیا جا رہا ہے؟ اور جبکہ ان ناکام چھاپہ مار کارروائیوں میں حکومت کو کچھ ہاتھ بھی نہیں لگتا مگر پھر اس سلسلہ کو ختم کرنے کے بجائے پوری شدت سے جاری رکھناملک کے ہر سنجیدہ طبقہ کے لیے تشویش میں مزید اضافہ ہی کررہاہے جس سے ملک میں افراتفری پھیل رہی ہے ۔