ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
حسان دانش شبِ معراج گردوں پہ تھا اُس خاک کا چرچا شبِ معراج جاگا تھا مدینے کا نصیبا شبِ معراج اجمال تھا ''تفصیلِ صفاتی'' سے گریزاں کس جوش میں تھا ذات کا دریا شبِ معراج ہر سانس پہ کُھلتے تھے خلائوں میں دریچے ہر ذرۂ خاکی تھا ستارا شبِ معراج تھی عرش پہ انسان کے پاپوش کی آہٹ دُنیا کے محاصل میں تھی عقبیٰ شبِ معراج لمحات کے سانچوں میں سمٹ آئی تھیں صدیاں ''امروز'' تھا آئینۂ فردا شبِ معراج جلوے بھی نہ تھے عابد ومعبود میں حائل بے واسطہ تھے بندہ و مولا شبِ معراج ہرسُوتھے خلائوں میں رَواں کیف کے جھونکے تھی کاہکشاں نُور کا دریا شبِ معراج خوش کام تھے اطراف و جوانب کے مناظر تھی لاکھ سویروں کا سویرا شبِ معراج پُھولوں میں بڑھا رنگ ستاروں میں تجلّی بر آئی دو عالم کی تمنّا شبِ معراج وہ موجۂ گرداب تھے الطاف و کرم کے ناپید تھا رحمت کا کنارا شبِ معراج پائی نہ رُسولانِ سلف نے یہ بلندی تھا زیرِ قدم عرشِ مُعلّٰی شبِ معراج اللہ نے خود چشمِ پیمبر سے اُٹھایا موجُودیّتِ خلق کا پردا شبِ معراج اِک سمت تو اُمّت کے گناہوں پہ نظر تھی اِک سمت سرمایۂ عقبیٰ شبِ معراج تھی اپنے شبابوں پہ بایمائے خداوند ضؤ ریزیٔ مہتاب و ثریّا شبِ معراج ہر بات سے اِک بات کا امکان تھا روشن ہر حسن سے سوحسن تھے پیدا شبِ معراج اس بات میں خاموش ہیں اب تک کے مہندس کس رُخ پہ بہا وقت کا دھارا شبِ معراج اس اَ وجِ نبوت کی خبر کس کو تھی دانش اللہ رے انسان کا رُتبہ شبِ معراج