ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی عبدالحمید صاحب رفتید ولے نہ از دلِ ما ( پروفیسر میاں محمد افضل صاحب ) نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم اما بعد! حدیث شریف میں آتاہے کہ قیامت برپا ہونے سے پہلے علم اُٹھ جائیگا اور علم کے اُٹھ جانے سے مراد علماء کرام کا اُٹھ جانا ہے۔پچھلے دنوں ایک ایسے ہی عالم باعمل ١٦اپریل ٢٠٠٤ء مطابق ٢٦صفر ١٤٢٥ھ کو اس دارفانی سے رخصت ہو کر عالم جاودانی کو سدھار گئے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ میری مراد اُستادِ محترم جامع المعقول والمنقول شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی عبدالحمید صاحب سیتاپوری ہیں ،جو جامع مسجد جانی شاہ لٹن روڈ لاہور میں تقریباًدس سال سے اپنی ضعیف العمری اور بیماری کی وجہ سے گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے۔ قوت سماعت کی کمزوری کی وجہ سے بہت اُونچا سنتے تھے ۔ اِن حالات میں بھی ذکر و شکر خداوندی سے رطب اللسان رہتے تھے ۔ بندہ جب کبھی حاضر ہوتا تو او کاڑ ہ کے ساتھیوں کا ذکرِ خیر زبان پر جاری ہوجاتا۔ آپ نہ صرف ایک متبحر عالم تھے بلکہ زہد و تقوی کے بلند مقام پر بھی فائز تھے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ آپ کو شیخ الاسلام حضرت مولاناسیّد حسین احمد مدنی سے شرفِ تلمذ اور سعادتِ بیعت حاصل تھی۔ آپ کی ولادت ١٩١٩ء میں ضلع سیتاپور (انڈیا) کی تحصیل بسواں کے ایک گائوں سَبْدَلْ پور کے ایک معزز راجپوت گھرانہ میں ہوئی ۔ آپ کے والد ماجد کا نام محمد علی خاں تھا جوبہت نیک سیرت، متبع شریعت اور پابند صوم وصلٰوة بزرگ تھے۔ انہوں نے اپنے اس ہونہار سپوت کو پہلے مڈل تک تعلیم دلائی۔ بعد میں علوم ِدینیہ کی تحصیل کی طرف متوجہ کیا۔ علومِ دینیہ کی تحصیل کے سلسلہ میں آپ رامپور اور دہلی کے مختلف مدارس میں زیرِ تعلیم رہے۔ ١٩٤١ء میں آپ دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے ۔ چار سال تک مختلف فنون کی کتب پڑ ھیں اور ١٩٤٥ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر فراغت حاصل کی ۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ،حضرت مولانا اعزازعلی اورحضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی جیسے یگانۂ روز گار علماء شامل تھے۔ فراغت کے بعدآپ نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے دورہ تفسیر کے حلقہ میںبھی داخلہ لے کر تفسیرِ قرآن کا علم حاصل کیا تھا۔ ان اساتذہ کرام کی نظر کرم اور شفقت کی وجہ سے آپ نوجوانی