ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
روزہ حکمرانی کا غرور بارود کی نذر ہو جائے گا اور ہماری غیور نسلیں برسوں تک اس فصل کو کاٹنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ غلام آقائوں کو ا پنی عاقبت اندیشی کا احساس کب ہوگا ؟ جنگ کے اصل حقائق کو کب سمجھیں گے ؟ کیا مفروضہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے دبائو میں جب طاقت و قوت کو فنا کرلیں گے ؟پٹرولیم اور دیگر معدنیات کے ذخیرے جب ہاتھوں سے نکل جائیں گے؟ ایٹمی طاقت کی جوہری تنصیبات جب تہس نہس ہو جائیں گی؟تو اس وقت سوچا جائے گا کہ جنگ کا اصل ھدف کیا تھا ؟ دہشت گردی تھی یا پٹرولیم کے ذخیروں پر قبضہ تھا یا اصل نشانہ اسلام اورمخلص سمجھے جانے والے مسلمان تھے۔ مسلمان کے خلاف دہشت گردی کا شور وشرابہ دراصل ''چور مچائے شور'' والا قصہ ہے۔ اصل مقصد توصلیبی ہے اس کا پہلا مرحلہ افرادی اور ملکی طاقت کے سرچشموں کو فنا کرناہے ۔ پٹرولیم کے ذخیروں پر قبضہ کرکے مسلم حکومتوں کو اقتصادی طورپر بے دست وپا کرنا ہے تاکہ اسلام پر بآسانی صلیبی مذہب کو غالب کیا جاسکے ۔ اگر اس فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش نہ کی گئی اور اس کے تدارک کے لیے فوری طورپر ہمارے سربراہوںنے مل بیٹھ کر حل نہ سوچا تو ملتِ اسلامیہ سخت مشکل سے دوچار ہو جائے گی اور ناہنجار حکمراں سب کچھ لٹا کر خود محلوں کے گڑھوں میں پڑے ہوں گے ۔ کیا تمہیں پتہ نہیں ع جو سراپا ناز تھے، آج مجبور نیاز اس لیے آنکھیں کھلی رکھ اور دانائے راز کی باتیں سن ! کرمکِ ناداں طوافِ شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو اور یہ بھی سن ! کہ ع نغمۂ بیداری جمہور ہے سامان ِعیش اور اس سامان ِعیش کو کامرانی کی ضمانت نہ سمجھ بلکہ یہ مکر کی ایک چال ہے،مگر افسوس ! اس سرابِ رنگ وبو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو غور کر! اور اس فریب کے حصار سے باہر نکل ، ترقی اور کامرانی کاراز اس نکتے میں مضمر ہے کہ ربط وضبط ملتِ بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے ابتک بے خبر پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو ملک ودولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِکاشغر