ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
بحرالمحیط میں ہے میں کہتا ہوں کہ حضرت عائشہ سے روایت کی سند ان الفاظ میں مذکور ہے ۔ ''حدثنی بعض اٰل ابی بکر'' یہ روایت مجھ کو ابوبکر کے خاندان والوں میں سے کسی سے پہنچی ہے وہ شخص جو ابو بکر کے خاندان سے تھا مذکور نہیں تاکہ اس کو جانچا جائے۔ راوی نے یہ روایت خود حضرت عائشہ سے نہیں سنی لہٰذا اُصولِ حدیث کے قواعد کے تحت یہ روایت منقطع، مجہول اور مردود ہے۔ حضرت معاویہ کی روایت : حضرت معاویہ کی روایت کی سند سیرة ابن اسحاق عن یعقوب بن عقبة بن المغیرہ بن الاخنس یعنی امیر معاویہ سے روایت کرنے والا راوی یعقوب بن عقبہ ہے جس کی امیر معاویہ سے نہ ملاقات ہے اور نہ ہی اُس نے اس کا زمانہ پایا ۔ ائمہ رجال نے لکھا ہے ھو لم ید رک زمن معاویة اس راوی نے حضرت معاویہ کا زمانہ نہیں پایا لہٰذا یہ روایت منقطع مجہول اور مردود ہوئی۔ اس لیے نہ حضرت عائشہ سے یہ ثابت ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے اور نہ حضرت معاویہ سے ۔ لہٰذا اِن حضرات کی طرف سے بیداری میں معراج کے سفر کا انکار غلط ہے۔ درایت : درایت اور عقل کے لحاظ سے بھی حضرت معاویہ کے واقعہ معراج کی بیداری کا انکار غلط ہے۔ واقعہ معراج بالاتفاق ہجرت سے قبل کا ہے اور کم از کم ایک سال ہجرت سے پیشتر کاہے۔اُس وقت حضرت عائشہ صغیرة اسن اور بچی تھیں اور حضور ۖ کی زوجیت میں داخل نہیں ہوئی تھیں ۔حضرت معاویہ واقعہ معراج کے وقت مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے بلکہ واقعہ معراج سے آٹھ نو سال بعد مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ لہٰذا واقعہ معراج میں اُن صحابہ کرام کی روایت ہی صحیح ہے جو اُس واقعہ کے وقت بڑی عمر کے تھے اور مشرف بہ اسلام تھے اور خود حضور علیہ السلام سے جو کہ صاحب واقعہ تھے انہوںنے واقعہ کی حقیقت سنی تھی ۔وہ سب روایات صاف دلالت کرتی ہیں کہ یہ واقعہ بیداری اورجسمانی شکل میں پیش آیا۔نیز رؤیت ِباری کے متعلق حضرت عائشہ کا انکار اور استدلال بھی جو صحیحین میں مذکورہے اِس امر کی دلیل ہے کہ حضرت عائشہ اس سفر کے بیداری اور جسمانی صورت میں ہونے کی قائل تھیں ،صرف آنکھ کے ذریعہ اللہ کو دیکھنے میں متردّد تھیں ورنہ خواب میں خدا کے دیکھنے کاکون انکار کرسکتا ہے۔ اہلِ الحاد کے استدلال رؤیا وغیرہ پر بحث : حدیث شریک '' انا بین النائم والیقظان '' یا روایت '' فاستیقظ '' کہ میں نیند اور بیداری کی حالت میں تھا یا یہ کہ پھر حضور ۖ جاگے ۔ اس کا جواب اولاً یہ ہے کہ شریک راوی کثیر الغلط ہے اور محدثین نے ا س روایت میں اس کی غلطی کی تصریح کی ہے کہ اس نے اپنے بیان میں بے ترتیبی کی ہے ۔دوم یہ کہ امام قرطبی نے اسی حالت کو ابتداء پر