ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
حضرت نانوتوی کی رشتہ داری کی وجہ سے اکثر دیوبند تشریف آوری ہوتی رہتی تھی ۔ دیوبند میں حضرت مولانا ذوالفقار علی ، حضرت مولانا فضل الرحمن اورحضرت حاجی محمد عابد سے موّدت و محبت کا رشتہ قائم تھا ۔ سوانح مخطوطہ کے مصنف نے لکھا ہے : ''اسی زمانے میں جناب مولوی رفیع الدین صاحب اور جناب حاجی محمد عابد صاحب رحمہما اللہ چھتے کی مسجد میں قیام پذیر تھے۔ مولانا نے ان بزرگوں کی وجہ سے اسی مسجد میں قیام کیا اور ان دونوں بزرگوں سے کمال درجے کا ربط ضبط قائم ہوگیا '' ۔ (تاریخ دارالعلوم ص ١٤٩ ج ١ ) ''١٢٧٧ھ/ ١٨٦٠ء میں حضرت حاجی محمد عابد صاحب رحمة اللہ علیہ کا سفر حج بمعیت حضرت نانوتوی، مولانا مظفر حسین کاندھلوی اور مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمہم اللہ کے ساتھ ہواتھا۔ یہ سفر پنجاب اور سندھ کے راستے سے کیا گیا'' ۔ (تاریخ دیوبند ص ٤٤٩) ٥٧ء کے بعد پادری میلوں اور عام مجمعوں میں اسلام اور آنحضرت ۖ پر ا عتراضات کرنے لگے۔ حضرت نانوتوی نے دلی کے قیام کے زمانہ میں جب یہ صورت حال دیکھی تواپنے شاگردوں سے فرمایا کہ وہ بھی اسی طرح بازاروں میں کھڑے ہو کر وعظ کہا کریں اور پادریوں کا رد کریں ۔ ایک روز خود بھی بغیر تعارف اور اظہار نام مجمع میں پہنچے اور پادری تارا چند سے مناظرہ کیا اور اُس کو سر بازار شکست دی اس کے بعد ان کا تعارف مشہور مناظر اسلام مولانا ابوالمنصور ناصرالدین علی دہلوی (وفات ١٣٢٠ھ/ ١٩٠٢ء ) سے ہوا۔ یہ ربیع الاول ١٢٩٢ھ تا جمادی الثانیہ ١٢٩٢ھ کے درمیان کا واقعہ ہے ۔اس زمانے میں حضرت نانوتوی منشی ممتاز علی کے مطبع مجتبائی دہلی میں مقیم تھے۔ (تاریخ دارالعلوم ص ١١٧ ج١ ) حضرت مولانا محمد قاسم صاحب اور نانوتہ اورآپ کا شجرہ نسب : یہ تو بتلایا جا چکاہے کہ نانوتہ دیوبند کے قریب بجانب مغرب صرف ١٦ میل پر ایک قدیم قصبہ ہے ، یہ سہارنپور شاہدرہ دہلی کی لائٹ ریلوے لائن پر واقع ہے ۔اس کی وجہ تسمیہ کی نسبت تاریخ سہارنپور (شاہ ہارون پور ) میں لکھا ہے کہ یہ قصبہ نانونامی گوجر یا راجپوت کے نام پر موسوم ہے ۔نانوتہ کی قدیم تاریخ سے صرف ِنظر کرکے اگر صرف آخری دو صدیوں کی علمی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس سرزمین نے جو لعل و جواہر پیدا کیے ہیں وہ قیامت تک نظروں کو خیرہ کرتے رہیں گے۔ حضرت نانوتوی کا خاندان نانوتہ کا رہنے والا ہے ۔خود انہوں نے تیرہویں صدی کے اواخر میں دیوبند کی سکونت اختیارفرمائی ۔