ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
دی ان ڈپنڈنٹ لندن اور ڈائی ٹاک زیٹنگ ، برلن ، اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی کم ازکم ٢٤ کمپنیوں اور جرمنی کی ٨٠ کمپنیوںنے عراق کو نیو کلیائی، کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیار بنانے کے لیے ہر قسم کی تکنیکی معلومات ہی نہیں بلکہ سارے کمپلیکس کی تعمیر اور مطلوبہ بنیادی سازو سامان فراہم کیے تھے (سہارا ٢٥فروری ٢٠٠٣ئ)۔ عراق کے بعد افغانستان آئیے : جہاں ١٩٩٥ء سے طالبان کی اسلامی سلطنت کا سورج امن و سکون کی روشنی بانٹ رہا تھا ۔ ببرک کارمل کی رُوسی حکومت طالبان سے لڑ کر شکست کھا چکی تھی بلکہ اس کی کمیونزم حکومت کا بھی خاتمہ ہو چکا تھا اور صرف ٥فیصد علاقہ پر رُوس نواز طالبان مخالف قابض تھے ۔ امریکہ اس جنگ میں طالبان کی دل کھول کر ہتھیاروں سے مدد کر رہا تھا بلکہ ١٩٩٨ء تک طالبان حکومت کے تمام اخراجات کی ادائیگی خود امریکہ ہی کرتا رہا لیکن یہ فراخ دلانہ ہمدردیاں طالبان سے محبت کا نتیجہ نہ تھیں بلکہ اس کے پس پردہ تہہ بہ تہہ مقاصد تھے (طالبان بھی اس حقیقت سے ناآشنا تھے) بظاہر اس ہمدردی کا ابتدائی مقصد یہ تھا کہ بحیرہ کیپسین میں چھ ٹریلین ڈالر کا تیل موجود ہے اسے بحیرۂ عرب تک پہنچانے کے لیے افغانستان سے پائپ لائن گزارنے کی ضرورت تھی ، اِسی پائپ لائن کی تعمیر کے لیے امریکہ نے ١٩٩٦ء میں طالبان کو اقتدار تک پہنچایا لیکن ہوا یہ کہ ١٩٩٩ء میں طالبان نے اس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے امریکہ کو نفی میں جواب دیدیا تو یونوکال (Unocal)کمپنی کے نائب صدر جان ماریسکا(John Maresca)نے کانگریس کے سامنے اس بات کا رونا رویا کہ جب تک افغانستان میںطالبان کی جگہ کوئی اور حکومت نہیں لائی جاتی، پائپ لائن کی تعمیر کا امریکی خواب ادھورا ہی رہ جائے گا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے جب طالبان حکمراں کو کسی طرح رام نہ کیا جا سکا تو ١١ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پہ حملہ کا ڈرامہ رچایا گیا اور اُسامہ بن لادن کو اس حملہ کا سب سے بڑا مجرم فرض کرکے ''القاعدہ'' تنظیم کو جنم دیا گیا اور اس کا سپریم کمانڈر اُسامہ کو مان کر ملّا عمر سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ ملّا عمر کی ایمانی حمیت نے جب اس مطالبہ کو مسترد کردیا توبش کی مجرمانہ ذہنیت نے افغانستان و طالبان پر اپنی دہشت گردی کی انتہا کردی ، شہر اور بستیاں کھنڈر بن گئیں ، صحرا و بیاباں لرز اُٹھے ، پہاڑیاں ریت کے تودوں کی طرح بکھر گئیں اور طالبان کی حکومت ختم ہو گئی۔ مشہور زمانہ یونوکال تیل کمپنی کے ایک ادنیٰ ملازم حامد کرزئی کو افغانستان کا حکمراں بنا دیا گیا، اس کے بعد ٣١جنوری ٢٠٠٢ء کو امریکہ نے خاموشی سے اعلان کردیا کہ وہ افغانستان سے گزرنے والی پائپ لائن کی تعمیر میں مددد ے گا ۔ کرزئی اور مشرف نے اس پائپ لائن کے بچھانے کے منصوبے پر فروری ٢٠٠٢ء کو کابل میں دستخط کرکے طالبان کی ہوش مندانہ حکمت عملی کے خلاف اپنی بیمار طبیعت اور غلام ذہنیت کا ثبوت فراہم کردیا۔