ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( سجدہ سہو کا بیان ) جب کبھی بھولے سے نماز میں کوئی ایسی کمی یا زیادتی ہو جائے جس سے نماز تو نہیں ٹوٹتی لیکن نماز میں نقصان آجاتا ہے اس کی تلافی کے لیے شریعت نے نماز کے آخر میں سلام سے پہلے دوسجدے تجویز کیے ہیں ان دوسجدوں کو سجدہ سہو کہتے ہیں۔ سجدہ سہو کا طریقہ : سجدہ سہو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اخیر رکعت میں فقط التحیات پڑھ کر ایک طرف یعنی دا ہنی طرف سلام پھیر کے دوسجدے کرے۔ پھربیٹھ کر التحیات اور درُود شریف اور دعا پڑھ کے دونوں طرف سلام پھیرے اور نماز ختم کرے۔ سجدہ سہو کے چندمسائل : مسئلہ : کسی نے بھول کر سلام پھیرنے سے پہلے ہی سجدہ سہو کرلیا تب بھی اداہو گیا اور نماز صحیح ہوگئی ۔ مسئلہ : جن چیزوں کو بھول کرکرنے سے سجدہ سہو واجب ہے اگر اُن کو قصداً کرے تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوتابلکہ نماز پھر سے پڑھے۔ اگر سجدہ سہو کر بھی لیا تب بھی تلافی نہیں ہوتی۔ مسئلہ : اگر نماز میں کئی باتیں ایسی ہوگئیں جن سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے تو ایک ہی سجدہ سب کی طرف سے ہو جائے گا۔ ایک نماز میں دودفعہ سجدہ سہو نہیں کیا جاتا۔ مسئلہ : سجدہ سہو کرنے کے بعد پھر کوئی ایسی بات ہو گئی جس سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے تو وہی پہلا سجدہ کافی ہے اب پھر سجدہ نہ کرے۔ مسئلہ : نماز میں کچھ بھول ہو گئی تھی جس سے سجدہ سہو واجب تھا لیکن سجدہ سہو کرنا بھول گیا اور دونوں طرف سلا م پھیردیا لیکن ابھی اسی جگہ بیٹھا ہے اور سینہ قبلہ کی طرف سے نہیں پھیرا نہ کسی سے کچھ بولا نہ کوئی اور ایسی بات ہوئی جس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے تو اب سجدہ سہو کرلے بلکہ اسی طرح بیٹھے بیٹھے کلمہ اوردرود شریف وغیرہ کوئی وظیفہ بھی پڑھنے لگا ہو تب بھی کچھ حرج نہیں ۔ اب سجدہ سہو کرلے تو نماز ہو جائے گی۔ مسئلہ : سجدہ سہو واجب تھا اور اس نے قصداً دونوں طرف سلام پھیردیا اور یہ نیت کی کہ میں سجدہ نہ کروں گا تب بھی جب تک کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے نماز جاتی رہتی ہے سجدہ سہو کرلینے کا اختیار ہے۔