ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
ور بیدار رہنے میں بھی مدد ملے گی ،مگر مجمع میں خاموشی سے دعاء مانگنا ہی پسندیدہ ہے ۔ اور یہی تحقیق علامہ سیّد محمود آلوسی نے تفسیر رُوح المعانی (ص١٤٠،ج ٨ ) میں نقل فرمائی ہے وہاں ملاحظہ کیجیے۔ اور امام ابوبکر جصاص رازی احکام القرآن (ص ٤٢، ج٣ ) میں لکھتے ہیں : والدلیل علٰی ما روی فی تأویل قولہ تعالٰی قد اجیبت دّعو تکما۔قال کان موسٰی یدعو وھارون یؤمّن فسمّا ھما اللّٰہ داعیین۔ ''اور اس پر دلیل وہ ہے جو آیت قد اجیبت دعوتکما کی تأویل میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام دعاء مانگتے تھے اورحضرت ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے اور دونوں کو اللہ تعالیٰ نے دعاء مانگنے والا قراردیا''۔ اور آمین کہنے والا تب ہی آمین کہتا ہے جبکہ کلماتِ دُعاء کو وہ سنتا ہو۔ پس ثابت ہوا کہ مناسب حد تک بلند آواز کے ساتھ دعا کرنا جائز ہے۔ اور مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للہیثمی (ص١٧٠، ج١٠) باب التاّمین علٰی الدّعائِ کے تحت حدیث نقل فرماتے ہیں عن ابی ھبیرة عن حبیب بن مسلمة الفھری وکان مستجاباً انّہ اُمر علٰی جیشٍ فدرب الدّروب فلمّا لقی العدوّقال للنّاس سمعت رسول اللّٰہ (ۖ) یقول لا یجتمع ملأ فیدعوا بعضھم ویؤمّن سائرھم الا اجابھم اللّٰہ ثمّ انہ حمد اللّٰہ واثنٰی علیہ وقال اللّٰھم احقن دمائَ نا واجعل اُجورنا اجور الشھدائِ فبیناھم علٰی ذالک اِذ نزل الھنباط امیرالعدوّفدخل علٰی حبیبٍ سُرادقہ۔ (رواہ الطبرانی وقال الھنباط بالرومیة صاحب الجیش ورجالہ رجال الصحیح غیرابن لہیعة وہو حسن الحدیث) ۔ ''ابو ہبیرة سے روایت ہے کہ حبیب بن مسلمہ فہری مستجاب الدعوات تھے ۔یہ ایک لشکر کے امیر ہوئے اور سرحدیں پار کرچکنے کے بعد جب دشمنوں سے ملے تو لوگوں سے کہا کہ میں نے حضور ۖسے سنا ہے۔ آپ فرماتے تھے کہ جب کوئی جماعت جمع ہوتی ہے اور ان کا بعض دُعاء کرے اور باقی لوگ آمین کہیں تو ضرور اللہ پاک ان کی دعاء قبول کرتا ہے اور اس کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور ثناء کی اور کہا اے میرے اللہ! ہمارے خون کی حفاظت فرمااور ہمارے اجور کو شہداء جیسا اجر کردے۔ لوگ ابھی اسی حال میں تھے کہ اچانک دشمنوں کا امیر جس کو ہنباط کہتے ہیں