ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
آتاہے کہ یہ خوف ورجا جو سرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امدادِ غیبی موقوف ہو جائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا القصہ آمدنی اورتعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے۔ (٧) سرکار کی شرکت اور امراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے ۔ (٨) تا مقدور ایسے لوگوں کا چندہ زیادہ موجب برکت معلوم ہوتا ہے جن کو اپنے چندہ سے امید ناموری نہ ہو ۔ بالجملہ حسن نیت اہلِ چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتا ہے ۔( تاریخ دارالعلوم ج١ ص ١٥٣ و ١٥٤) وصیت ٦، ٧، ٨ کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہے اور کبھی گورنمنٹ سے بھی گرانٹ نہیں لی گئی ۔ دارالعلوم اور اس کے نقشِ قدم پر قائم ہونے والے مدارس شجرةً طیبتاً اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء حضرت اقدس نانوتوی کے سالِ وصال کے ذیل میں آپ کا ذکر مبارک آیا ۔ اب پھر بانی دارالعلوم حضرت حاجی محمد عابد صاحب رحمة اللہ علیہ کے تعلق مدرسہ کے زمانہ تک کا سن وار حال تحریر ہے ۔اہم واقعات سن وار یہ ہیں : ١٢٩٨ھ/ ١٢٩٩ء میں جلسہ تقسیم انعام و اسناد منعقد ہوا جو چند سال سے نہیں ہوسکا تھا۔ ١٣٠٢ھ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی قدس سرہ کی ٣ ربیع الاول کو نانوتوتہ میں بمرضِ فالج وفات ہوئی (تقویم کے اعتبار سے یہ ٢١ دسمبر ١٨٨٢ء تاریخ بنتی ہے )۔ ١٣٠٦ھ میں حضرت مولانا رفیع الدین صاحب بقصد ہجرت مدینہ منورہ روانہ ہوئے اوروہیں ١٣٠٨ھ میں وفات پائی ،تقریباً بیس سال فرائض اہتمام انجام دئیے تھے۔ اراکینِ شورٰی نے حضرت حاجی محمد عابد صاحب رحمة اللہ علیہ سے اہتمام کی ذمہ داری سنبھالنے کی درخواست کی۔ آپ مجلس شورٰی کے رکن تو شروع ہی سے تھے اور ١٢٨٣ھ اور ١٢٨٧، ١٢٨٦ھ میں دو مرتبہ مہتمم رہ چکے تھے۔ صاحب تذکرہ نے حضرت حاجی صاحب کے ایک اختلاف کی وجہ بھی ذکر کی ہے لیکن وہ اہلِ مدرسہ سے نہ تھا کچھ لوگوں سے تھا مگر وہ لوگ مدرسہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس اختلاف کے بعد حضرت مولانا رفیع الدین صاحب کی ہجرت کا زمانہ بنتا ہے ۔(جاری ہے)