ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
میں ہی عالمِ بے بدل اور زہد واتقاء کے پیکر ِ بے مثل بن گئے تھے۔ آپ صرف علومِ دینیہ کے ہی ماہر نہ تھے بلکہ علم ہیٔت اور طب ِیونانی میں بھی آپ کو کامل دستگاہ حاصل تھی۔ مولانا مرحوم ١٩٥٦ء میں جامعہ رشیدیہ ساہیوال کو خیر باد کہہ کر جامعہ محمودیہ عید گاہ اوکاڑہ میں تشریف لے آئے اور تدریس کتب کی ذمہ داری سنبھالی ۔ میرے والد صاحب نے مجھے مولانا کے سپرد کردیا۔ اُس وقت بندہ کی عمر دس برس سے زیادہ نہ تھی۔ بندہ تقریباً پانچ سال تک مولانا کے ساتھ رہا۔ بچہ ہونے کی وجہ سے مولاناکے گھر کے کام کاج بھی بندہ کے سپرد تھے۔ جس طرح مولانا مجھ پر شفیق تھے مولاناکی اہلیہ مرحومہ بھی بندہ سے نہایت شفقت کا سلوک کرتی تھیں ۔ مولانا کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا مفتی عبدالرشید صاحب مر حو م مجھ سے تقریباً پانچ سال چھوٹے تھے اور میرے ہمجولیوں میں شامل تھے ۔مولانامرحوم کے چھوٹے بچوں کو اپنی گود میں کھلانے کا شرف بھی حاصل رہا ۔ الغرض بندہ کو مولانا مرحوم اپنے گھر کا فرد خیال کرتے تھے اور شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔ میںنے ابتدائی فارسی سے لے کرشرح جامی ، کنزالدقائق تک تمام کتب مولانا مرحوم سے پڑھیں۔ مولانا کا اندازِ تدریس نہایت دلکش اور جاذب ہوتا تھا۔ دورانِ سبق طنزومزاح کی باتیں بھی خوب فرماتے تھے ۔ اس لیے آپ کے سبق میں بوریت اور یبوست نامی کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ بات سمجھانے کا انداز بہت عمدہ اور دلنشیں ہوتا تھا۔ ہر طالب علم آپ کے اندازِ تدریس سے یکساں فائدہ اُٹھاتا تھا۔ کند ذہن طلباء بھی سبق کو سمجھ کر اُٹھتے تھے ۔ میں بچپن میںخاصا شریر واقع ہوا تھا ۔ مولانا میری شرارتوں کو برداشت کرتے اور بعض اوقات محظوظ بھی ہوتے اور فرماتے : افضل بہت شریر ہے اس لیے سبق خوب یاد کر لیتا ہے۔ دورانِ تدریس مولانا ادبی لطائف بھی سناتے رہتے تھے جن سے ذہین طلبا کو بہت فائدہ پہنچتا تھا ۔اُن میں سے چند ایک لطائف قارئین کی نذر کرتا ہوں تاکہ اُنہیں مولانا کے ادبی ذوق کو پہچاننے اور جاننے کا موقع ملے : ایک مرتبہ فرمایا : ''مردہ بدریامی رود و شلغم می خورد''، اس کا مطلب بتائو ؟ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ مردہ دریا میں بہتا جارہاہے اور شلغم کھا رہا ہے۔بظاہر بات بے معنی سی لگتی ہے ۔ کافی غور و خوض کے بعد جب بات سمجھ نہ آئی تو فرمایا : شلغم کو ''شل غم'' پڑھو بات سمجھ آ جائیگی۔ جب ایسا کیا تو بات سمجھ آگئی یعنی مردہ کی لاش دریا میں بہتی جا رہی ہے اور ایک فالج زدہ آدمی کو اس بات کا دکھ ہے کہ وہ دریا میں کود کر لاش کو باہرنہیں نکال سکتا کیونکہ اُس کے لیے چلنا پھر نادشوار ہے۔ ایک مرتبہ فرمایا: ''وزیرروزہ داشت و شہتوت خورد روزۂ اونہ گسست ''ا س کا مطلب بتائو۔ اس کا بظاہرترجمہ یوں ہے کہ وزیر نے روزہ رکھاا ور شہتوت کھائے مگر اس کا روزہ نہ ٹو ٹا۔ ہمیں بات سمجھ نہ