ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کے سامنے سیاسی حالات تھے عربک کالج کا حال سامنے تھا اور کشف سے اندازہ ہوا ہوگا کہ یہاں انکاعلمی سلسلہ جاری رہے گا اس لیے انہوں نے دارالعلوم کے لیے کچھ وصیتیں فرمائیں جن میں حکومت سے امداد کے بجائے توکل کی تلقین فرمائی ہے اور کچھ اصول ِکاربھی۔ ان سے آپ اُن کے ذہن مبارک کے تقدس کا بھی اندازہ لگائیں اور یہ بھی دیکھیں کہ دارالعلوم نے اِن پر کاربند ہو کر کتنی ترقی کی ہے۔تاریخ دارالعلوم سے ہم یہ وصایا نقل کرتے ہیں۔ (١) اصل اول یہ ہے کہ تا مقدور کارکنان ِمدرسہ کو ہمیشہ تکثیر چندہ پر نظر رہے آپ کوشش کریں اوروں سے کرائیں خیر اندیشانِ مدرسہ کو یہ بات ہمیشہ ملحوظ رہے۔ (٢) ابقائے طعام طلبہ بلکہ افزائش ِطلبہ میں جس طرح ہو سکے خیر اندیشانی مدرسہ ہمیشہ ساعی رہیں۔ (٣) مشیران ِمدرسہ کو ہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اور خوش اسلوبی ہو اپنی بات کی بچ نہ کی جائے خدانخواستہ جب اس طرح کی نوبت آئے گی کہ اہلِ مشورہ کو اپنی مخالفت رائے اوراوروں کی رائے کے موافق ہونا ناگوار ہوا تو پھر اس مدرسہ کی بنیادمیں تزلزل آجائیگا ۔القصہ تہ دل سے بر وقت مشورہ اور نیز اس کے پس و پیش میں اسلوبی مدرسہ ملحوظ رہے ،سخن پروری نہ ہو۔اور اس لیے ضروری ہے کہ اہلِ مشورہ اظہار ِرائے میں کسی وجہ سے متائل نہ ہوں اور سامعین بہ نیت نیک اس کو سنین یعنی یہ خیال رہے کہ اگر دوسرے کی بات سمجھ میں آجائے گی تو ا گرچہ ہمارے مخالف ہی کیوں نہ ہو بدل وجان قبول کریں گے اور نیز اسی وجہ سے یہ ضروری ہے کہ مہتمم اُمور ِمشورہ طلب میں اہلِ مشورہ سے ضرور مشورہ کیا کرے خواہ وہ لوگ ہوں جو ہمیشہ مشیر مدرسہ رہتے ہیں یا کوئی واردو صادر جو علم وعقل رکھتا ہو اور مدرسوں کا خیر اندیش ہو اور نیز اس وجہ سے ضرور ہے کہ اگر اتفاقاً کسی وجہ سے اہلِ مشورہ سے مشورے کی نوبت نہ آئے اور بقدر ضرورت اہلِ مشورہ کی مقدار معتدبہ سے مشورہ کیا گیا ہوتو پھر اس وجہ سے نا خوش نہ ہو کہ مجھ سے کیوں نہ پوچھا ہاں اگر مہتمم نے کسی سے نہ پوچھا تو پھر اہلِ مشورہ معترض ہو سکتا ہے ۔ (٤) یہ بات بہت ضروری ہے کہ مدرسین مدرسہ باہم متفق المشرب ہوںاور مثل علماء روزگار خودبین اور دوسروں کے درپے توہین نہ ہوں ۔ خدانخواستہ جب اس کی نوبت آئے گی تو پھر مدرسہ کی خیر نہیں۔ (٥) خواندگی مقررہ اس انداز سے جو پہلے تجویز ہو چکی ہے یا بعد میں کوئی اور انداز مشورہ سے تجویز ہو پوری ہو جایا کرے۔ ورنہ یہ مدرسہ اول تو خوب آباد نہ ہوگا اور اگر ہوگا تو بے فائدہ ہوگا۔ (٦) اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں جب تک یہ مدرسہ انشاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہو گئی جیسے جاگیر یا کارخانۂ تجارت یا کسی امیر محکم ا لقول کا وعدہ تو پھر یوں نظر