ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
مجھے جناب حامد حسن صاحب پٹواری عثمانی دیوبند ی رحمة اللہ علیہ نے بتلایا تھا کہ وہ حضرت نانوتوی قدس سرہ کے دفن کے کام میں شریک تھے جب قبر کھودی جارہی تھی تو اُس میں مٹی میں سے خوشبو آرہی تھی یہ ان کا اپنا مشاہدہ تھا۔ ان سے ہماری رشتہ داری تھی اوریہ عثمانی خاندان میں معمر بزرگ گزرے ہیں ۔ ان کا حوالہ خاص طورپر اس لیے لکھ رہا ہوں کہ وہ احمد رضا خاں صاحب کوبھی ٹھیک سمجھتے تھے۔ نوٹ : حضرت کی وفات کا دن تو متعین ہے کہ پنجشبہ تھا، تقویم کے اعتبار سے یہ ٥ جمادی الاولیٰ / ١٥ اپریل ١٨٨٠ء بنتی ہے۔ تاریخ وفات کے کلمات عجیب ہیں ایسے ہی حضرت مدنی کی تاریخ وفات حضرت مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی مدظلہ نے نکالی تھی رضی اللہ عن حسین احمد۔ مرضِ فالج میں بڑے بڑے اکابر مبتلا ہوئے اور اسی میں ان کی وفات ہوئی کچھ عرصہ قبل مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اسی میں مبتلا ہو کر وفات پاگئے رحمہم اللہ۔ اس مرض کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے روایت نقل کی ہے کہ یہ داء الانبیاء یعنی انبیاء کرام کا مرض ہے ۔ اس کی تفسیر کئی طرح ہو سکتی ہے مگر میں صرف روایت نقل کرتا ہوں ۔حدثنا جریر عن لیث عن ابی ھبیرة قال الفالج داء الانبیاء ۔( تذکرہ حضرت ربیع بن خثیم ،کتاب الزھد ص ٣٣٩ مطبوعہ بیروت)۔ آپ نے علم حدیث اس طرح حاصل کیا کہ فجر سے ظہرتک حدیثیں نقل کرتے اور ظہر کے بعد عصرتک حضرت شاہ اسحٰق صاحب سے مکہ مکرمہ میں نقل کی ہوئی احادیث کی سماعت کرتے ۔آپ نے حدیث کی تمام کتابیں شاہ صاحب سے اسی طرح پڑھیں۔( تاریخ دارالعلوم حاشیہ ص ١٠٦ ج١) حضرت مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری رحمة اللہ علیہ نے حجاز سے واپس آکر١٢٦٢ھ /١٨٤٥ء میں مطبع احمدی دہلی میں قائم کیا۔یہ مطبع ہندوستان میں سب سے پہلا مطبع ہے جس میں کتب حدیث طبع ہوئیں ۔ ١٢٦٥ھ/ ١٨٤٨ء میں جامع ترمذی، ١٢٧٠ھ/ ١٨٥٣ء میں صحیح بخاری اور ١٢٧١ھ / ١٨٥٤ء میں مشکٰوة المصابیح نہایت اہتمام سے شائع ہوئیں۔بخاری شریف کے آخر کے پانچ یا چھ پاروں کا حاشیہ لکھنا حضرت مولانا احمد علی صاحب نے حضرت مولانامحمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہما کے ذمہ کیا جو انہوں نے باحسن ِوجوہ اعتراضات امام بخاری رحمةاللہ علیہ کے جواب باحوالہ سمیت مکمل فرمایا۔امام بخاری نے مسلک حنفی پر اس حصہ میں بہت اعتراضات اُٹھائے ہیں۔١٨٥٧ء کے انقلاب کے بعد یہ مطبع میرٹھ منتقل ہوگیا(تاریخ دارالعلوم ص ١٠٧و ١٠٨ مع حاشیہ ج ١) ۔ حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے یہ حاشیہ ١٢٦٨ھ/ ١٨٥٢ء میں لکھا ہے ( تاریخ دارالعلوم ص ١٠٩ ج١ )۔اس وقت آپ کی عمر مبارک اکیس سال تھی( تاریخ دارالعلوم ص ١١٢ج١)۔