ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
صحاح ستہ اور بعض دیگر کتب اپنے فخر زمانہ استاذ حجة اللہ البالغہ مولانا محمد قاسم صاحب رحمةاللہ علیہم سے شروع کی۔ مولانا ممدوح میرٹھ میں منشی ممتاز علی صاحب کے مطبع میں تصحیح کا کام کرتے تھے۔ پھر مطبع دہلی منتقل ہو گیا تو مولانا ممدوح بھی دہلی مقیم ہوئے او رکبھی کبھی دیوبند اور اپنے وطن نانوتہ بھی تشریف لے جا کر مقیم رہتے ۔حضرت مولانا (شیخ الہند) نے ان سب مقامات میں اکثر اپنے باکمال استاد کے ساتھ رہ کر دل وجان سے قابل رشک خدمت کرکے سعادت حاصل کی اور سفر و حضر میں سلسلۂ درس جاری رکھ کر استاد کی شفقت اور اپنی ذکاوت سے بکمال تحقیق کتابیں پڑھیں۔ حضرت میاں سیّد اصغر حسین صاحب دیوبندی نور اللہ مرقدہ کیفیت ِدرس تحریر فرماتے ہیں : ''مولانا کی خدمت میں سبق پڑھنا کچھ آسان کام نہ تھا عبارت میں غلطی کرنا یا ترجمہ سمجھنے کے خیال سے ٹھہرنا تو گویا گناہ ِکبیرہ تھا ۔اس قسم کے اُمور اور بے موقع سوال سے مولانا مکدَّر ہو جاتے اور سبق کا لطف ہی جاتا رہتا ۔جو شخص ذہین اور مستعدہوتا اور اصل کتاب کو پہلے سمجھا ہوا ہوتا وہ مولانا کے مضامین سمجھنے کی اُمید کرسکتا تھا۔ اچھے اچھے ذی استعداد مولوی اس شرط پر شریک کیے جاتے تھے کہ صرف سنتے رہیں عبارت پڑھنے یا کچھ دریافت کرنے کا حق نہ ہوگا۔ لوگ خوشی سے قبول کرتے اور حاضر ہوتے۔ مولانا کا طرز ہی جدا تھا حدیث ہو یا منطق کلام ہو یا معانی ہر فن کے متعلق عجیب و غریب تحقیقات بیان فرماتے جس سے ہر مسئلہ کی انتہائی تحقیق اور اختلافات کی تطبیق بدیہی اور مشاہدہ کے طورپر ہو جاتی تھی اوراس قسم کے مضامین بیان فرماتے کہ کسی کے خیال میں آتے تھے نہ کسی نے سنے ''۔ حضرت کو قدرتی طورپر سعادت ِازلی سے مولانا کے مضامین سے خاص مناسبت تھی اور اسی کے ساتھ طبع سلیم، ذہن ِرسا، حافظہ قوی یہ سب وجوہ مزید شفقت کا باعث تھیں اور سب سے بڑھ کر مولانا کی بصیرت اور نورِ فراست جس سے نظرآرہاتھا کہ یہی شخص کمالاتِ قاسمی کا آئینہ ہوگا اور علومِ انبیاء کا وارث۔ اسی طرح رفتہ رفتہ ١٢٨٩ھ تک حضرت نے تمام صحاح ستہ اور دیگر فنون کی اعلی کتابیں مولانا کی خدمت میں ختم فرمائیں اور اسی زمانہ میں باوقات مختلفہ ادب کی بعض کتب اپنے والد ماجد سے اور حساب وغیرہ دیگر فنون کی کتابیں مدرسہ میں پڑھیں۔ علوم ِعقلیہ و نقلیہ میں اعلی استعداد حاصل کرکے فارخ التحصیل ہوگئے اور بطور معین الدرسین درس دینے لگے۔ ١٩ ذی قعدہ ١٢٩٠ھ میں مدرسہ کے جلسہ دستار بندی اور اہلِ اسلام کے مجمع عام میں (بہ ہمراہی مولانا فخرالحسن صاحب گنگوہی و مولانا عبدالحق صاحب پو ری سلَّمہ وغیرہ) سند فراغ اور دستار فضیلت اکابر علماء اور خیار عباداللہ کے دست حق پرست سے عطاء ہوئی۔ (حیات شیخ الہند ص٢٠)