ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
ہم جیسے بُھولے بسرے گنتی کے چند نمازی ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ نماز جمعہ کے بعد امام صاحب نے دُعاء شروع کرادی ان کی دُعاء شروع ہوتے ہی بعض نمازیوں نے (جو حالات سے آگاہ پرانے نمازی ہوں گے)فوراً سنتوں کی نیت باند ھ لی مگر ہم نے دُعاء کے لیے ہاتھ اُٹھا کر خطیب صاحب کی دُعاء پر آمین کہنا شروع کردیا۔ خطیب صاحب کی قافیہ والی طویل دُعاء ختم ہونے میں نہ آرہی تھی ،اکثریت اُکتا کربے دلی کے ساتھ آمین کہہ رہی تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ خطیب صاحب گویا دو تقریروں کے عادی ہیں ایک جمعہ سے پہلے اور دوسری جمعہ کے بعددُعاء کی شکل میں۔ مسجد سے باہر آکر میرے میزبان نے بتلایا کہ چونکہ بیرونی اسپیکروں کے استعمال پر پابندی ہے اس لیے اندرونی اسپیکروں کی آواز اتنی بڑھادی گئی کہ باہر دور تک آواز جاسکے ظاہر ہے اسپیکر کی آواز جب اتنی بڑھادی جائے گی تو شور وغوغا کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا اور مسجدکے اندر بیٹھے ہوئے بیچارے نمازیوں کا کیا حال ہوتا ہوگا یہ وہی خود جان سکتے ہیں..........انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس تحریر میں خطیب صاحب نے شرعی اور اخلاقی اعتبار سے کیا کیا او ر کہاںکہاں کوتاہیاں کی ہیں اس کی ایک لمبی فہرست بن سکتی ہے مگر اس کی ضرورت نہیں ہے البتہ اس قسم کے خطباء حضرات اگر صدقِ دل سے اس پر غور فرمائیں گے تو اپنی تقصیرات اُن پر خود آشکارا ہوجائیں گی او ر اس کے ساتھ آخرت میں جوابدہی کا خوف بھی اگر دامن گیر ہوگیا تو پھر قوی اُمید ہے کہ دوسروں کی اصلاح سے زیادہ اپنی اصلاح کی فکر دامن گیر ہو جائیگی اور اگر ایسا ہو گیا تو معاشرہ پر اس کے اچھے ثمرات بھی مرتب ہوناشروع ہوجائیں گے انشاء اللہ ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی تقصیرات پرنظرکرکے اُن کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور صحیح معنیٰ میں دین کا مبلغ بنائے۔آمین۔