ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
نے دارالعلوم ہی کے حلقہ میں ایک جماعت بنائی اس کا نام ''ثمرة التربیہ'' یعنی تربیت کا پھل تجویز فرمایا۔بظاہر اس کا مقصد دارالعلوم کے مالی مفاد کے لیے فضلاء اورہمدردان ِدارالعلوم سے رابطہ رکھنا تھا(اسیرانِ مالٹا ص٩) ۔ اصل مقصد ایسے با حوصلہ افراد کی تنظیم تھا جو قیام دارالعلوم کے مقصد١٨٥٧ء کی تلافی کے سلسلہ میں کام کر سکیں۔ (اسیرانِ مالٹا ص١٢) سلاطین اسلام کے زمانہ میں کابل ہندوستان کا جزو رہا ہے انگریز وں نے بھی اس کاارادہ کیا مگر ناکام رہے حضرت سیّد صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کی جدو جہد نے ہندوستانی اور سرحدی مجاہدین میں ایک رابطہ قائم کردیا جو انبالہ اور پٹنہ(صو بہ بہار)کے زمانہ ١٨٦٤ء تک یعنی '' ثمرة التربےة '' کے قیام سے پندرہ سال پہلے تک استحکام کے ساتھ باقی رہا ان حضرات کے بعد امداد رسانی کا وہ تعلق ختم ہو گیا مگر مجاہدین کا رابطہ ختم نہیں ہوا ۔ہندوستانی مجاہدین سرحدی علاقوں میں باقی رہے۔ دارالعلوم دیوبند نے اس رابطہ کو استادی اور شاگردی کی شکل میں تبدیل کر دیا جو انقلابی جدوجہد کے لیے پہلے سے بہت زیادہ مستحکم اور مفید ہوسکتا تھا خصوصاً جبکہ مولانا محمود حسن صاحب جیسا سیاسی اور مذہبی مقتدا نہ صرف استاد بلکہ شیخ اور مرشد بھی ہو جس کے دست حق پرست پر سلوک و طریقت کے لیے بھی بیعت کی جاتی ہو اور جہاد کے لیے بھی۔ (اسیرانِ مالٹا ص٢٤) اس عرصہ میں ثمرة التربیہ کی خدمات کیا تھیں اس کی کوئی دستاویز نہیں ہے البتہ یہ پتہ چلتا ہے کہ١٣٢٧ھ ١٩٠٩ء میں جمعیة الانصار کے نام سے اس کا ظہور ہوا۔جمعیة الانصار کا سب سے پہلا اجلاس شوال ١٣٢٨ھ (١٦١٥ ١٧ اپریل ١٩١١ء )کو مرادآباد میں ہوا اس جلسہ کے صدر حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے رفیق قدیم حضر ت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے شاگرد خاص حضرت مولانا احمدحسن امروہی رحمہ اللہ تھے آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا : بعض نئی روشنی کے شیدائی کہتے ہیں کہ جمعیة الانصار ''اولڈ بوائز ایسوسی ایشن ''کی نقل ہے لیکن یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے جمعیة الانصار کی تحریک غالباً اب سے تیس برس پہلے شروع ہوگئی تھی اور اس صفحہ نمبر 41 کی عبارت تحریک کے بانی مدرسہ عالیہ کے وہ طالب علم تھے جو آج علوم کے سرچشمہ اورآفتابِ فنون ہیں اور جن کی ذات بابرکات پر آج زمانہ جس قدر ناز کرے کم ہے لیکن یہ تحریک اس وقت ضروریات سے متعلق نہیں تھی اس لیے رُک گئی اور آخر اس کلیہ کی بنا ء پر کہ ضرورت ہر چیز کو خودبخود پیدا کر دیتی ہے ١٣٢٧ ھ (٩٠٩ ١ء ) سے اس انجمن کو دوبارہ زندہ کرکے جمعیة الانصار نام رکھا گیا۔ جمعیة الانصار ہرگز کسی انجمن کی نقل نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے ذاتی مقاصد سے بحیثیت دنیاوی اس کا تعلق ہے بلکہ اس کے مقاصد وہ ضروری مقاصد ہیں جن کی آج بہت ضرورت ہے ۔(اسیرانِ مالٹا ص٢٣)