ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
کہ ان کو بیچ کر حج کر سکتاہے تو ان کو حج کے لیے بیچنا واجب ہے۔ مسئلہ : کسی کے پاس اتنا بڑا مکان ہے کہ اس کا تھوڑا سا حصہ رہنے کے لیے کافی ہے اور باقی کو بیچ کر حج کرسکتاہے تو اس کوبیچنا واجب نہیں ہے لیکن اگر ایسا کرے تو افضل ہے۔ مسئلہ : ایک شخص کے پاس اتنا بڑا مکان ہے کہ اس کو بیچ کر حج بھی کر سکتا ہے اور چھوٹا سامکان بھی خرید سکتا ہے تو اس کا بیچنا ضروری نہیں ۔اگر بیچ کر حج کرے توافضل ہے۔ مسئلہ : اگر کسی کے پاس اتنی مزروعہ زمین ہے کہ اگر اس میں سے تھوڑی سی فروخت کردے تو اس کے حج کا خرچ اوراہل و عیال کا واپسی تک کا خرچ نکل آئے گا اور باقی زمین اتنی بچ رہے گی کہ واپس آکر اس سے گزر کر سکتا ہے تو اس پر حج فرض ہے اور اگر فروخت کرنے کے بعد گزرکے لائق نہیں بچتی توحج فرض نہیں ۔ مسئلہ : ایک شخص کے پاس حج کے لائق مال موجود ہے لیکن اس کو مکان کی ضرورت ہے تو اگر حج کے جانے کا (یا حج کے لیے خرچ جمع کرانے کا )وقت یہی ہے تو اس کوحج کرنا فرض ہے ۔مکان میں صرف کرنا جائز نہیں ۔البتہ اگر وہ وقت ابھی نہیں آیا تومکان میں صرف کرنا جائز ہے۔ مسئلہ : حرام مال سے حج کرنا حرام ہے ۔اگر اس نے کیا توفرض تو ساقط ہو جائے گا مگر حج مقبول نہ ہو گا۔ مسئلہ : اگر کسی شخص کے پا س حج کے لائق روپیہ موجود ہے اور وہ نکاح بھی کرنا چاہتا ہے تو اگر حاجیوں کے جانے کا یا حج کا خر چ جمع کرانے کا وقت ہے تو اس کو حج کرنا واجب ہے اور اگر ابھی وہ وقت نہیں آیا تو نکاح کرسکتا ہے لیکن اگر یہ یقین ہے کہ اگر نکاح نہ کیا تو زنا میں مبتلا ہو جائے گا تو پہلے نکاح کرے حج نہ کرے۔ (٧) حج کا وقت ہونا ۔ یعنی حج کے مہینے ہوں جو کہ یہ ہیں شوال ،ذیقعدہ اور ذالحجہ کے دس روز یا ایسا وقت ہو کہ اس جگہ کے لوگ عام طورسے اس وقت حج کو جاتے ہیں ۔ حج کی ادائیگی کے وجوب کی شرائط : یہ وہ شرائط ہیں کہ حج کا وجوب تو ان کے پائے جانے پر موقوف نہیں لیکن اداکرناان شرائط کے پائے جانے کے وقت واجب ہوتا ہے۔اگر وجوب اور وجوبِ ادا دونوں کی شرائط موجود ہوں تو پھر انسان کو خود حج کرنا فرض ہے اور اگر وجوب کی تمام شرائط موجودہوں لیکن وجوب ادا کی شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جاتی ہو تو پھر خود حج کرنا واجب نہیں ہوتا بلکہ ایسی صورت میں اپنی طرف سے کسی دوسرے شخص سے فی الحال حج کرانایا بعد میں حج کرانے کی وصیت کرنا واجب ہوتا ہے ۔ اس قسم کی پانچ شرطیں ہیں :