ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
حرف آغاز گرمی ہنگامہ ہے تیر ی حسین احمد سے آج جن سے ہے پرچم روایاتِ سلف کا سربلند ٭ شعار اس کا بزرگانِ سلف کا زہد و تقوٰی ہے جہاد اس کا نہیں پابندِقید سبحہ گردانی وہ جسکی خلوتِ شب کی بدولت اب بھی تازہ ہے گداز بوذر وعشق اویس وسوزِ مسلمانی ٭ شیخ الاسلام حضرت اقدس سیّدنا حسین احمد مدنی قدس اللہ سرہ العزیز ماضی قریب کی وہ نامور شخصیت ہیں کہ جو محتاجِ تعارف نہیں برصغیر بالخصوص ہندو پاک میں جو بھی تحریکا ت ہیں جن کا مقصد اسلام کی سربلندی ہے انکا سررشتہ بالواسطہ یا بلا واسطہ حضرت اقدس شیخ الاسلام سے جا ملتاہے۔ ہندوستان کی آزادی ،وہاں بسنے والے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی اور اس سر زمین میں دین پر ثابت قدم رہنے کی تلقین ، شعائر اسلام کا احیا ء ،تعلیم و تعلم ،رجال کا ر کی فراہمی ،تزکیہ نفس واصلاحِ احوال، غرض ہر شعبہ کی روح رواں حضرت اقدس کی ذات والا صفات ہی ہے۔ اعلا ء کلمة اللہ کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کے''طبل''کی گونج جس سے فی الوقت سارا عالم لرزاں ہے حضرت ہی کی قربانیوں کا ثمرہ ہے۔ حضرت مولانا السیّد ابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ حضر ت کے بارے میں میں تحریر فرماتے ہیں : صفحہ نمبر 4 کی عبارت ُُُُُُمولانا کا ایک بڑا کارنامہ جس کی اہمیت کا احساس بہت کم لوگوں کو ہے یہ ہے کہ١٩٤٧ء کے ہنگامہ میں اور اس کے بعد ہندوستان میں مسلمان کی بقا وقیام کا ایک بڑ ا ظاہری سبب مولانا ہی کی ہستی تھی۔یہ وہ وقت تھا جبکہ بڑے بڑے کوہ ِاستقامت جنبش میں آگئے سب یہی سمجھتے تھے کہ اب ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں مسلمانوں کی تاریخ میں دوہی چار دور ایسے گزرے ہیں جب مسلمان اور اسلام کی بقا کا سوال آگیا ۔٧ ٤ء کاہنگامہ ہندوستان کے مسلمانوں کے حق میںاسی نوعیت کا تھا ۔اصل مسئلہ سہارنپور کے مسلمانوں کا تھا اور سارا دارومدار ان پر تھا ۔یہ ا پنی جگہ چھوڑتے