ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
بجتی تھی تو لوگ سمجھتے تھے کہ کوئی جادو ہے تواُس کا نام ''طلسم '' رکھ دیتے تھے تو یہ سب سائنسی چیزیں تھیں پھر ایک دور آیا ایسا کہ ان لوگوں نے عروج پکڑا او ریہ پھیلتے پھیلتے یہاں عراق سے شروع ہوئے اور ترکی کا علاقہ بھی انھوں نے فتح کرلیا شام کا علا قہ بھی فتح کر لیا سب علاقے ان کے زیر نگیں آگئے اور پھر آگے بڑھے یورپ میں بھی اٹلی کی طرف ۔ رُومیوں کے احوال : لیکن اتنے میں ایک عیسائی بادشاہ نے ان کے مقابلے کے لیے تیاری کی اور پھر اُس نے مقابلے میں جیتنا شروع کر دیا ، جیتے جیتے وہ اتنا بڑھا کہ ترکی کا سارا علاقہ لے لیا فلسطین ہے اُردن ہے لبنا ن ہے شام ہے سارے علاقے پر اس کا قبضہ ہو گیا تو پانچ سوسات سال ان لوگوں کی حکومت رہی اور ان میں چالیس بادشاہ گزرے ہیں حتی کہ حضرت عمر رضی صفحہ نمبر 15 کی عبارت للہ عنہ کے دور میں یہ لوگ نکلے ہیں پھر انھوں نے قسطنطنیہ میں دارالخلافہ بنایا ہے تو یہ رومی کہلاتے ہیں ان کا بادشاہ جو تھا ''ہر قل '' اُ س کے نام بھی جناب رسول اللہ ۖ نے والا نامہ تحریر فرمایا وہ عیسائی تھا اُس نے اسلام قبول نہیں کیا تعریف ضرور کرتا رہاہے حد سے زیادہ تعریف کی ہے اُس نے یعنی وہ پوری طرح جانتا تھا کہ یہ خدا کے رسول ہیں مانتا نہیں تھا تو اسلام جو نام ہے وہ صرف جاننے کا نہیں ہے بلکہ اسلام مکمل ہوتا ہے ماننے پر کہ آدمی اُسے مانے بھی اس کا نام ہے ''اقرار''کہ اقرار کرے اسلام کے بڑے ہونے کا یہ ضروری ہے یہ نہیں کیا اُس نے ۔ ایرانیوں کے احوال : اور ایک ''کسرٰی'' تھا یعنی اعراق کا اور ایران کا بادشاہ اس کے نام والا نامہ تحریر فرمایا وہ بدبخت اتنا مست تھا کہ اُس نے والا نامہ چاک کردیا اور سفیر کے ساتھ جسے بھیجا گیا تھا بُرا سلوک کیا تو قاصد کے ساتھ بُرا سلوک کرنا بہت بُری بات ہے اور یہ پہلے بھی بُری بات تھی اور آج بھی بُری بات ہے ۔یہ جو سفیر ہوتے ہیں ان میں سے کسی کے ساتھ بدسلوکی کی جائے تو سفیر کہے گا میں جا رہا ہوں اور دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو جائیں گے اور تعلقات ٹھیک ہوتے ہیں تو سفیر آتا ہے ورنہ سفیر ہی نہیں آتا ۔ یہ اعلانِ جنگ تھا : اور اس طرح کا معاملہ کرنا کہ اُس نے گرامی نامہ چاک کردیا یہ توگویا ایک انتہا درجہ کی گستاخی ہے اور