ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
اور یہ شخص اپنے مذہب سے واقف ہے یہ اہل کتاب میں سے ہے یہ وہی (شاہ حبشہ ) ہیں جن کی جناب رسول اللہ ۖ نے نماز جنازہ غائبانہ پڑھی ۔ شاہ حبشہ کے کچھ احوال : یہ شاہ حبشہ اپنے باپ کا اکلوتا لڑکا تھا اور اس کے چچا کے گیارہ لڑکے تھے تو جو اراکین مملکت تھے عمائدین وزراء صفحہ نمبر 13 کی عبارت کہہ لیا جائے یا سیکرٹری کہہ لیا جائے سیکرٹری تو یہ اب چلے ہیں اس سے پہلے تو وزرا ء ہی ہوتے تھے با اختیار ،سیکرٹری تو ایک ''کریک ''ہو گیا وزرا ت کے کام میں ،مددگار نہیں ہوتا بلکہ ''بریک ''لگادیتا ہے تو اُنہوں نے یہ سوچا کہ اس بادشاہ کا تو یہ ایک ہی بیٹا ہے اگر یہ مر گیا تو پھر اس کے یہ بادشاہ ہو جائے گااور یہ اکلوتا ہے اور اس کے بھی پتانہیں اولاد ہو یا نہ ہو اور یہ جوبھائی ہے بادشاہ کا اس کے گیارہ لڑکے ہیں تو اس لڑکے کو بادشاہت نہ دو بلکہ اس کے جو چچاہیں اس کو بادشاہت دے دو تو چچا کو بادشاہت دے دی اس کے گیارہ لڑکے تھے وہ گیارہ کے گیارہ اتفاق سے آوار ہ نکلے بالکل نکمے بے کاراوباش ۔وہ سوچتا تھا کہ یہ ٹھیک ہو جائیں گے مگر نہیں ہوئے اور یہ جو تھے'' اصحمہ''ان کا نام تھا ان میں بڑی اہلیت اور بڑی قابلیت تھی اور چچا کو پھر اِن ہی سے اپنی اولاد سے زیادہ محبت ہو گئی اب ایسے بھی ہو جاتاہے اپنی اولاد کو ئی لائق بننے کا اور ٹھنڈک ڈالنے کا کام ہی نہیں کرتی ہر وقت ایسی بے تکی باتیں کرتی ہے تو پھرخفگی ہوتی ہے اوربددلی ہو جاتی ہے او ر بھتیجا ہے وہ سراپا اطاعت ہے اور سمجھدار ہے تواس پر اعتماد ہو جاتاہے تو ان عمائد ین مملکت نے پھر سوچا کہ یہ اگر مر گیا تومرتے وقت کہہ جائے گا کہ اسے بنادو بادشاہ تو پھر وہی بات ہو جائے گی جس سے بچنے کی خاطر ہم نے یہ کیا تھا کہ اسے (یعنی چچا کو )تخت پر بٹھا یا تھا اب پھر یہ ہوجائے گا کہ یہ مرتے وقت پھر اُسے بٹھا جائے گا اور یہ اکلوتا ہے تو گمان یہ تھا کہ ممکن ہے اس کے ہاں اولاد نہ ہو یہ مرجائیگا تو پھر مصیبت بنے گی ۔بظاہریہ ہے کہ ان کا سوچنا خیر خواہی کی نیت سے ہوگا یا انہی سے ان کے دلوں میں کوئی کدّ بیٹھ گئی تھی ایسی کہ ایک دفعہ تو یہ حرکت کی کہ انھیں بادشاہ بننے ہی نہیں دیا چھوٹی عمر کے بھی تو بادشاہ ہوتے ہیں کام چلاتے رہتے ہیںدوسرے لوگ اور بنائے رکھتے ہیںانھیں بادشاہ ۔ایک دفعہ تو اس وقت ان سے بُرائی کی دوسری دفعہ اب بُرائی کرنے لگے اب کے جو کی وہ تو انتہا کردی کہ انھیں اغوا کیا اور لے جا کر بیچ دیا وہاں مختلف ممالک سے لوگ پہنچا کرتے تھے غلام خریدنے کے لیے اُن لوگوں نے ان میںشامل کرلیا ان کواور لے جا کر بیچ د یا۔اب ادھر یہ ہوا کہ اچانک بادشاہ پر بجلی گری اور بادشاہ ختم ہو گیا اور اس کے بیٹے وہی آوارہ اوباش تو وہ اراکین مملکت تھے خراب آدمی لیکن اتنے خراب نہیں تھے کہ سلطنت کی تباہی کا جو حال ہو جائے گوارا ہے یہ بات نہیں تھی تو اُنھوںنے فوراً آدمی دو ڑائے اور اُنھیں پکڑ کر بلوا لیا تو جس آدمی نے خریدا تھا اس نے کہا جناب ان کی قیمت تو دو مجھے تم وہ سپاہی ہوں گے کون سُنتا ہے وہ پکڑ ا اور لے کر ادھر آگئے اور لاکر تخت پر بٹھادیا پھر وہ آدمی آیا جس نے ان کو خرید لیا تھا کہنے لگا کہ جناب اپنی قیمت تو آپ مجھے دے دیجیے۔پھر انھوں نے اپنی قیمت ادا کی تو وہ کہنے لگے (عمائدین سلطنت