ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
لڑائی کا ضابطہ : اس زمانہ میں لڑائی کا دستور یہ تھا کہ جو سردار ہوتا تھا وہ جھنڈا لیتا تھا یا سردار اپنے آدمیوں میں جس کو بڑا بہادر سمجھتاتھا اُسے جھنڈا دیا کرتا تھا ورنہ خود سردار جھنڈا اُٹھاتا تھا جیسے جناب رسول اللہ ۖ کی طرف سے مثلاً کبھی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بھی جھنڈا اُٹھا یا کرتے تھے بجائے رسول اللہ ۖ کے تو جو سردار تھا وہ جھنڈا بھی اُٹھایا کرتا تھا اور پھر جہاں جھنڈا ہوتا تھا وہاں حملہ خوب ہوتاتھا کیونکہ یہ علامت ہوتی تھی جھنڈا کہ وہ ابھی تک قائم ہیں اور جھنڈا گرنا علامت ہوتی تھی کہ اب وہ ختم ہوگئے ہیں اب اُنھیں شکست ہو گئی ہے تو جھنڈے کے لیے تو زبردست کھیچا تانی ہوتی تھی تو ان صفحہ نمبر 17 کی عبارت رُومیوں کی تعداد بہت تھی اور مسلمانوں کی تعداد تھوڑی تھی اور جھنڈا گرنے کے بعد جو لڑنے والے ہوتے تھے وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ ہمیں شکست ہوگئی ہے ان کے بھی حوصلے پست ہو جاتے تھے اس لیے جھنڈا پکڑنے والا اپنی پوری قوت صرف کرتا تھا کہ میںجھنڈا پکڑے رہوں ۔ حضرت جعفر کی بہادری : توحضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا جب نمبر آیا تو ان پر حملہ کرنے والوں نے حملہ کیا تو ان کا ایک ہاتھ کا ٹ دیا تو انھوں نے پھر اپنے بائیں ہاتھ میں جھنڈا پکڑ لیا پھر جب وہ بھی کٹ گیا تو کٹے ہوئے ہاتھوں سے پکڑلیا اب ان پر بارش ہوئی تیروں کی تلواروں کی نیزوں کی تو ان کے جسم کا سامنے کا حصہ جو تھا وہ تو پہچاننے کے قابل بھی نہیں رہا کیونکہ اُس پر تو نوے کے قریب زخم تھے جب نوے کے قریب زخم ہوں تو پھر وہ پہچاننے کے قابل بھی نہیں رہتا لیکن سب آگے تھے پُشت پر کوئی نہ تھا پھر لڑائی بند ہو گئی اُس دن وقت ختم ہو گیا تھا ۔ حضرت خالد کی حکمت عملی : اگلے دن لڑائی شروع ہوئی تو حضرت خالد بن ولید نے لشکر کو ترتیب دیا اس طرح کہ وہ دُور کھڑے ہو ں کہ اگلی صف میں جہاں آدمی نہیں ہیں پچھلی صف میں وہاں آدمی کھڑا ہو تو لشکر دو گنا لگنے لگا ایک تو ان پر یہ اثر پڑا کہ لشکر معلوم ہوتا تھا انھیں کہ دوگنا ہو گیا ہے معلوم ہوتا تھا کہ رات رات میں ان کے پاس مدد پہنچی ہے تو اسی سے ان کے حوصلے پست ہونے شروع گئے پھر خدا نے کیا انھیں کامیابی ہو گئی ۔جناب رسول اللہ ۖ یہاں بتلا رہے تھے کہ دیکھو یہ ہو رہا ہے یہ ہو رہا ہے اور فلاں شہید ہوگئے فلاں شہید ہو گئے فلاں شہید ہوگئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بارہ میںآقائے نامدار ۖ نے بتلایا کہ انھوں نے خدا کے لیے اتنی بڑی قربانی دی کہ ایک ہاتھ کٹ گیا تو دوسر