ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
جب کبھی کسی نے شعر وسخن میںمولانا سے مذاکرہ کیا ہے تو اس قدر اردو ،فارسی ،عربی کے اشعار اس کو سننے پڑے ہیں کہ اس کوسوائے حیرانی کے اور کوئی چیز ہاتھ نہیں آئی ۔پھر اس پر طرہ یہ کہ قدرت نے موزونیت طبع وہ عطا ء فرمائی تھی کہ کھرے اور کھوٹے کوخوب پہنچانتے او ر اس میںتمیز کامل فرماتے تھے۔وہ اعلیٰ درجہ کے اشعار تالیف فرماتے تھے کہ طبقۂ علماء تو درکنا ر حذّاق شعرا ء بھی عش عش کرجاتے تھے۔(اسیران مالٹا ص٦٢تا٦٤)(حضرت مدنی رحمہ اللہ نے حضرت شیخ الہند سے چوبیس کتابیں پڑھی تھیں ان کے والد ماجد مولانا ذوالفقار علیسے ''فصول اکبری ''اور حضرت شیخ الہند کے بھائی مولانا حکیم محمد حسن صاحب سے پنج گنج، صرف میر، نحو میر، مختصر المعانی ،سلم العلوم ،ملا حسن، جلالین شریف اور ہدایہ اولین پڑھی رحمہم اللہ)۔ آپ کو حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمہمااللہ سے خلافت حاصل تھی دارالعلوم میں صدارت تدریس کا مشاہرہ اس وقت ٧٥ روپے تھا مگر آپ نے ٥٠ روپے سے زیادہ کبھی قبول نہیںفرمائے بقیہ ٢٥ روپے دارالعلوم کے چندہ میں شامل فرمادیتے تھے آپ کی زبردست علمی شخصیت کے باعث طلبہ کی تعداد ٢٠٠ سے بڑھ کر ٦٠٠ تک پہنچ گئی آپ کے زمانہ میں ٨٦٠ طلبہ نے حدیث نبوی سے فراغت حاصل کی حضرت شیخ الہند کے فیض تعلیم نے حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری ،مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا منصورانصاری، مولانا حسین احمد المدنی ،مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا شبیر احمد عثمانی ،مولانا سید اصغر حسین دیوبندی، مولانا سیّد فخرالدین احمد ،مولانا محمداعزاز علی امروہی مولانا محمد ابراہیم بلیاوی، مولانا سیّد مناظراحسن گیلانی، مولانا احمد علی لاہوری، (مولانا رسول خاں ہزاروی) رحمہم اللہ رحمة واسعةو غیرہم جیسے مشاہیر او ر نامور علماء کی جماعت تیار کی (تاریخ دیوبندص ٤٥٣و ص ٤٥٤)۔حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی علمی بے نہایت استعداد سے جو ساری دنیا کو تسلیم ہے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ رات دن مطالعہ ہی میں مصروف رہتے ہوں گے ورنہ اس طرح باکمال درس نہیں دیا جا سکتا ۔جیسا کہ اوپر ان کے عظیم ترین شاگردوں نے بیان کیا ہے جو خود اپنی جگہ آسمانِ علم کے آفتاب وماہ تاب تھے ۔ لیکن خداوندکریم کی ذات پاک سے جب کسی کا تعلق قوی ہو تو اس کے اوقات میں برکت ہونے لگتی ہے اگر یہ صفحہ نمبر 40 کی عبارت حضرات تعلیم کے ساتھ تصنیف و تالیف میں لگ جاتے تو بلا شبہہ وہ تبحر علمی دقت نظراور حافظہ کے اعتبار سے غزالی دوراں رازی وقت کہلاتے او ر حافظ الدنیا ابن حجر وسیوطی وابن کثیر رحمہم اللہ کے ہم پلہ ہوتے ۔آئمہ اسلام نے تصانیف بہت کی ہیں اگر ان کی تعداد اور بڑھا دی جاتی تو یہ بھی مفید درمفید کام ہوتا لیکن ان حضرات کوا سلام دشمن فریبی فرنگی طاقت سے اہل اسلام کو نجات دلانے کا فکر دامن گیر رہتا تھا اور بقیہ سارا وقت بجائے تصنیف و تالیف کے اس تدبیرمیں صرف ہوتاتھا جسے وہ انگریز کی جابروعظیم طاقت سے خفیہ بھی رکھنا چاہتے تھے۔ حضرت شیخ الہند رحمةاللہ علیہ کے دارالعلوم میں مدرس کی حیثیت سے تقرر کو پانچ سال ہوئے تھے کہ ١٢٩٧ھ میں آپ