ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2003 |
اكستان |
|
کہیں شائع نہیں ہوئی ہے ، مصر کے کتبخانہ میں اس کے مخطوطے موجود ہیں۔ مخدوم گرامی حضرت الاستاذ مولانا سید ارشد صاحب مدنی دامت برکاتہم نے گزشتہ سال اس کتاب کی تعلیق و طباعت کا ارادہ فرمایا ، جب سید صاحب سے آپ نے اس کا ذکر کیا تو سید صاحب نے مدینہ منورہ سے اپنے ایک معتمد''شیخ السعد شیرا'' کو بذریعہ ہوائی جہاز قاہرہ بھیجا ،انھوں نے وہاں ٹھہر کر سرکاری لائبریری ''دار الکتب العلمیہ''سے نخب الافکار کے مکمل نسخہ کا بہت اہتمام سے فوٹو کرایا اور ایک بڑی اٹیچی میں پیک کرکے مدینہ منورہ لائے پھر یہ امانت سیّد صاحب نے ہندوستان لانے کے لیے ہمارے حوالے فرمائی، ہم لوگ اس وقت حج کرکے واپس آرہے تھے الحمد للہ اس کتاب کی پہلی جلد جو کتاب الطہارت پر مشتمل ہے چند روز قبل دیوبند سے شائع ہوگئی ہے اس صدقہ جاریہ میں سیّد صاحب کا بھی حصہ ہے اللہ تعالیٰ موصوف کی ان خدمات کو بے حد قبول فرمائے آمین۔ موصوف کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح مال و دولت سے نوازا تھا اسی طرح جو دوسخا اور اعلیٰ درجہ کی صلہ رحمی او ر حسن اخلاق سے بھی وافر حصہ عطا فرمایا تھا ۔ نہ صرف اہل مدینہ بلکہ ملک وبیرون ملک میں پھیلے ہوئے آ پ کے متعلقین واعزاء آپ کے احسانات سے گراں بار تھے ۔اہل علم اور اصحاب فضل کا آپ بہت اکرام فرماتے تھے،حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کا مدینہ منورہ میں مدرسہ علوم شرعیہ ہی میں قیام رہتا تھا جو اس وقت باب جبرئیل کے بالکل قریب تھا ۔او ر سیّد صاحب پورے ذوق وشوق سے حضرت شیخ کے قیام کے انتظامات فر ماتے تھے اب بھی حج کے موقع پر جب صاحب زادہ محترم حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب زید کرمہم تشریف لے جاتے تو سیّد صاحب کی طرف سے ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا جاتا تھا جس میں بڑی تعداد میں وقت پر موجود ہندوستانی احباب و علماء شرکت کی سعادت حاصل کرتے تھے ۔ خاندانی پس منظر : شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی کے والد ماجد جناب سیّد حبیب اللہ صاحب نے ١٣١٦ ھ میں اپنے وطن مالوف ٹانڈہ (فیض آباد ) سے مدینہ منورہ ہجرت فرمالی تھی ،اس وقت آپ کے ساتھ جانے والوں میں آپ کے اہل خاندان میں شیخ الاسلام حضرت مدنی اور آپ کے بھائی حضرت مولانا سیّد صدیق احمد صاحب ،حضرت مولانا سیّد احمد صاحب ( بانی مدرسہ علوم شرعیہ ) ،سیّد جمیل احمد صاحب اور سیّد محموداحمد صاحب شامل تھے۔ اس خاندان نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد بڑی سختیاں اُٹھائیں اور بہت آزمائشیں برداشت کیں جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ ١٣١٦ھ سے ١٣٣٣ھ تک شیخ الاسلام حضرت مدنی نے مسجد نبوی میںدرس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا (گو کہ بیچ میں کئی سال ہندوستان میں بھی رہنا ہوا ) پھر ١٣٣٣ ھ میں حضرت مولانا مدنی اپنے استاذ شیخ الہند حضرت مولانا محمود