ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراکتوبر 2002 |
اكستان |
|
کتنے سیاسی حریف ہیں جو بے قصور ہونے کے باوجود جیلوں میں پڑے ہیں اور ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں اور محض اپنے سیاسی دشمنوں سے انتقام لینے کے لیے کتنے جُھوٹے ڈرامے رچائے جاتے ہیں اورجُھوٹی کہانیاں بنائی جاتی ہیں لیکن حکومت اس خطرناک فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے حکومتی وسائل استعمال نہیںکرتی ۔ ایک مذہبی فرقہ واریت ہی ہے جو ان کو نظر آتی ہے وہ اسی کی مذمت کرتی ہیں اسی کو ختم کرنے کے پروگرام بناتی ہیں ان کو تمام برائیاں اسی کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ کیا ان کو فرقہ واریت کی مکروہ ترین اور خطر ناک ترین قسموں کے مہلک تباہ کن نتائجِ بد نظر نہیں آتے ۔اصل بات یہ ہے کہ دین دشمن عناصر کی مدت سے کوشش ہے کہ علماء اسلام اور دین کے قلعے یعنی اسلامی مدارس کو مذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی کے حوالے سے اتنا بدنام کر دیا جائے کہ عوام الناس مدارس اسلامیہ اور علماء اسلام سے اتنے بد ظن ہوجائیںاور مدارس اور اہلِ مدارس سے اتنے دور ہو جائیں کہ وہ تعاون بھی چھوڑ دیں اور علماء دین سے دور ہو کر خود بھی بے دین ہوجائیں اور لوگ بے دینی اور بدنامی کے خوف سے اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلانا چھوڑ دیں۔ درحقیقت فرقہ واریت کا یہ پروپیگنڈا اس تسلسل کا حصہ ہے جو مشرکین مکہ نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فرقہ واریت کا اور قریش کو آپس میں لڑانے کا پروپیگنڈا کیا تھا لیکن نہ وہ اوائل زمانے کے دین دشمن اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہوئے نہ اخیر زمانہ کے یہ دشمن کامیاب ہوں گے۔ بس دُعا یہ ہے کہ اللہ تعالی علماء اسلام کو خصوصاً اہل مدارس اور اہل مساجد کو اخلاص و تقوٰی ،علم و فہم اور ہمت و استقامت کی قوت و دولت سے مالا مال فرمائیں۔ آمین ثم آمین بجاہ رسول رب العالمین۔