ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
|
وقت انہیں جمعیت کے سر پرست اعلی اور بزرگ رہنما کا مقام حاصل تھا ۔حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے بعد انہوں نے حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی ،حضرت مولانا مفتی محمود اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی کی رفاقت میں سالہا سال تک کام کیا اوردینی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں او ر مختلف اضلاع میں داخلہ کی پابندیوں اور زبان بندیوں کے ایک طویل سلسلہ کا ہدف بھی رہے ۔عام اجتماعات میں ان کی تقاریر یکساں نوعیت کی ہوتی تھی ۔لیکن جب انہیں کسی متعین موضوع پر بولنے کے لیے کہا جاتا یا علماء اور کارکنوں کی کوئی خصوصی نشست ہوتی توان کا انداز مختلف ہوجاتا تھا اور وہ معلومات کاایسا انبار لگا دیتے کہ سننے والوں کے لیے ان معلومات کو سمیٹنا مشکل ہو جاتا ۔ مولانا اجمل خان کے ساتھ میرا تعلق کم وبیش تیس برس سے تھا ۔وہ میرے مشفق اور دعا گو بزرگ تھے ۔ہمیشہ شفقت اور دعائوں سے نوازتے ،جماعتی کاموں میں سرپرستی فرماتے ۔ اور مجھے ان کے ساتھ ایک کارکن کے طور پر کوئی خدمت سرانجام دے کر دلی خوشی میسر آتی ۔ مجھے ان کی تین باتوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ایک ان کا مطالعہ او ر وسعت معلومات کہ وہ مسلسل اور بہت زیادہ مطالعہ کرنے والے خطیب تھے ۔ ان کے عمومی خطابات سننے والوں کو اس کا پوری طرح سے اندازہ نہیں ہو سکتا لیکن خصوصی مجالس او رعلمی نشستوں میں ان کے بیانات سننے والے جانتے ہیں کہ معلومات ،علمی نکات اور مطالعہ میں انہیں اپنے معاصرخطباء پر فوقیت حاصل تھی۔ ہمارے دور میںعوامی خطباء میں مطالعہ،تحقیق اور صحیح معلومات تک رسائی کا ذوق بہت کم ہے جو بد قسمتی سے مزید کم ہوتا جاتا رہاہے مگر حضرت مولانا اجمل خان کا ذوق اس معاملہ میں بلند تھا اورمیںاس حوالے سے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی،خطیبِ پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی اور خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی کے ساتھ اسی صف میں حضرت مولانا محمد اجمل خان کو بھی شمار کرتاہوں ۔ دوسری بات ان کی نیکی اور تقوی تھا۔ وہ مزاج کی بعض نزاکتوں کے باوجود قناعت پسند بزرگ تھے ان کے پیش نظرہمیشہ دین و جماعتی ترجیحات رہیں اور انہوں نے خطابت کے اس اعلی مقام کو بھی دنیاوی مفادات کے حصول کاذریعہ نہیں بنایا یہی وجہ ہے کہ کم و بیش چار عشروں تک خطابت کی دنیا میں حکمرانی کرنے کے بعد بھی ان کا جنازہ مسجد کے مکان سے اُٹھا وہ شب زندہ دار تھے اور صرف سٹیج کے نہیں بلکہ مصلی اور ذکر و فکر کی دنیا کے بھی بزرگ تھے۔ تیسری بات ان کی حمیت و غیرت ہے وہ دینی شعائر اور اپنے بزرگوں کے حوالے سے سخت غیور تھے ۔شعائر دینی اور اپنے بزرگوں کی ادنیٰ سی بے حرمتی بھی برداشت نہیں کر پاتے تھے اور ایسے وقت میں ان کا غصہ اور جوش قابل دید ہوتاتھا۔ بھٹو حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کادورتھا لاہو ر میں مارشل لا ء نافذ تھا اور پاکستان قومی اتحاد کی مرکزی جنرل