ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
حرام ہیں ،اور ظاہر ہے کہ جہاں اکل باطل ہوگا وہاں ایک فریق کی عدم رضا ضرور ہو گی ،اکل باطل میں کھانے والا تو راضی ہوتا ہے لیکن جس سے کھایا جاتا ہے وہ کبھی راضی نہیں ہوتا ،وہ اسے صرف اپنی مجبوری سے برداشت کرتا ہے، اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی ایسی تجارت ہو جس میں دونوں فریقوں کی رضامندی اور خوشدلی ہو تو وہ یقینا اکل بالباطل نہ ہوگا ۔اس توجیہ کی رو سے کمرشل انٹرسٹ (تجارتی سود ) کو دیکھیے کہ اس میں قرض لینے والا مجبور اور مظلوم نہیں ہوتا،اور اسی طرح وہ دائن کے نفع سے ناخوش بھی نہیں ہوتا ،لہٰذا جو ربوٰ حرام ہے وہ وہی ہے جس میں ایک فریق کا خود غرضانہ نفع اور دوسرے کا نقصان ہے کمرشل انٹرسٹ پرجو تجارت کی جاتی ہے اس میں دونوں کی باہمی رضامندی اور خوش دلی ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس گروہ کا یہ استدلال بھی سطحی نوعیت کا ہے کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ فریقین کی رضامندی کو حرام چیز کے حلال ہونے کے لیے سبب قرار نہیں دیا جا سکتا ،کیا فریقین رضامند ہوں تو زنا کو جائز کہا جا سکتا ہے ؟ تجار ت میںایسی بہت سی انواع ہیں کہ جن میں دونوںفریق راضی اور خوش ہوتے ہیں مگر وہ ناجائز ہیں ،حدیث کی کتابوں میں ''ابواب البیوع الباطلة '' میں دیکھئے کہ محاقلہ ،تلقی الجلب ،بیع کی ان تمام صورتوں میں فریقین کی رضامندی اور خوش دلی ہوتی ہے ،مگر ہر ایک کو رسول اللہ ۖ نے حرام قرار دیا ہے۔ صرف سود اور قمار میں بھی فی الجملہ فریقین معاملے پرراضی ہوتے ہیں اس کے باوجود اسے حرام قرار دیا گیا، لہٰذا صرف اس بنا پر کوئی سودی معاملہ جائز قرار نہیں پا سکتا کہ اس پر دونوں فریقین راضی ہیں بلکہ دونوں کی رضامندی کے ساتھ وہ ایسا معاملہ ہوناچاہئے جسے شریعت نے حرام قرار نہ دیا ہو اسی کو قرآن کریم نے الا ان تکون تجارةسے تعبیر فرمایا ہے۔ (شرکت ومضاربت عصر حاضرمیں ص ٦٥تا٧٧) صفحہ نمبر 91 کی عبارت مولانا کی اس تحریر سے سود کی تمام شکلوں کی حرمت بخوبی واضح ہو جاتی ہے اتنے واضح اور روشن دلائل کے باوجود وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کو کالعدم قرار دینا عقل وفہم کے منافی اور غضب الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالی اپنے لطف و کرم کا معاملہ فرماتے ہوئے اپنے عذاب و قہر سے ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین۔