Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002

اكستان

52 - 67
بھیڑوں کا نہیں بلکہ دھرتی پر بسنے والے تمام انسانوںکا حق ہے ۔یونان میں سرمایہ داری اورگلو بلائزیشن کے خلاف ہزاروں افراد کی احتجاجی مظاہروں کی ایک خصوصی اہمیت یہ بھی ہے کہ سرمایہ داری نظام کے پروردہ کا غذی دانشور اپنے تئیں اس غیر انسانی نظام کو انسانیت کی منزل مقصود اور حرف آخر قرار دے کر تاریخ کی موت کا اعلان کرچکے ہیں اور تاریخ کا جشن مرگ بھی منا چکے ہیں لیکن یونان کے لوگوںنے ان عقل کے اندھے لوگوںکو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ارض یونان نے انسانی عقل و دانش اور فکر و فلسفہ کے ارتقا ء میںنمایاں کردار ادا کیا ہے اور یہ تاریخ کا اٹل اصول ہے کہ وہ کسی بھی غیر انسانی،استحصالی اور ظالمانہ نظام کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُترنے کے بجا ئے اسے خود اپنے بے رحم ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار دیاکرتی ہے ۔
	 ارض یونان کے باشندوں سے زیادہ بہتر طور پر کون اس حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہے کہ وہ یونانی عقل ودانش اور فکر و فلسفہ کی گُل ہو جانے والی شمعیں ہی تھیں جنہیںابن رشد اور اس جیسے دیگر مسلمان فلسفیوں اور  شارحین نے اپنے خون جگر سے از سرنو روشن کیا اور پھر یورپ کے ظلمت کدے اس روشنی سے منور ہوئے ۔ اسی طرح انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں یونان قدیم کی تہذیب نے کلیدی کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یونان کے عوام نے عالمی سرمایہ داری نظام اور اس کے سفاکانہ گلوبلائزیشن کے باعث کرہ ارض پر انسانی تہذیب وتمدن کو لا حق سنگین خطرے کو بھانپتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کے ذریعے اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے۔اور تاریخ کی مو ت کا دعوٰی کرنے والے سرمایہ دارانہ دانشوروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ تاریخ تو یونانی دیومالاکے پرندے قفس کی مانند ہے جو آگے کی جانب اپنی ہر پرواز کے بعد نیا جنم لے کر نئی تب وتاب کے ساتھ محو پرواز رہتی ہے اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک اڑان کے بعد اپنے پروں کی پھر پھڑاہٹ سے نکلنے والی چنگاریوںمیں جل کر بھسم ہوں جائیگی تواسے یہ خوش فہمی دور کرلینی چاہیے کیونکہ یہ چنگاریاں تواسے حیات نو اور ولولہ تازہ سے ہمکنار کرتی ہیں ۔آخر میں ہم گلوبلائزیشن کے خلاف احتجاج کرنے والے یونانی عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہ اُنہوں نے دنیا بھر میں سرمایہ داری نظام اور گلو بلائزیشن کے ستائے ہوئے مفلوک الحال عوام کی نمائندگی کا حق ادا کیا ۔					(روزنامہ اوصاف اسلام آباد  ١١ستمبر ٢٠٠١ئ)
	اب ہم اسلامی نظام معیشت پر روشنی ڈالیں گے کہ اسلام کس حد تک سود اور سرمایہ دارانہ نظام کی مذمت کا

 
حامل ہے ۔
	اسلام دین فطرت ہے اس کا معاشی نظام سرمایہ داری نظام اور اشتراکی نظام سے یکسر مختلف ہے ۔اسلامی نظام معیشت کی تمام تر شقیں اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام سے متصادم ہیں۔
	اسلامی نظام معیشت فرداور جماعت کے دونوں باہمی روابط کو قائم ودائم رکھتاہے۔ اسلام فرد وجماعت کے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
61 حرف آغاز 5 1
62 درس حدیث 7 1
63 مکہ کی ا قتصادی بد حالی : 8 62
64 کفار کی طر ف سے صلح کی ایک وجہ : 8 62
65 اقتصادی ضرب ، ایک درہم بھی نہ چھوڑا جائے : 8 62
66 صورتاً حرص نہ کہ حقیقتاً : 9 62
67 پیشگی زکٰوة : 10 62
68 وسیلہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ : 11 62
69 فتنوںکی روک : 11 62
70 قربِ قیامت کی بعض علاماتاحادیثِ نبویہ کی روشنی میں 13 1
71 فہم ِحدیث 23 1
72 (١) حکومت و سیاست : 24 71
73 (٢) علم وحکمت : 24 71
74 (٣) رشدو ہدایت : 24 71
75 انبیاء علیہم السلام کو بھی بشری عوارض پیش آتے تھے : 25 71
76 (١) بھول چوک : 25 75
77 (٢) بھوک کی شدت محسوس کرنا : 26 75
78 (٣) بچھو کا کاٹنا : 26 75
79 (٤) جادو کا اثر ہو جانا : 26 75
80 (٥) زہر کے اثر سے متاثر ہونا : 28 75
81 دینوی امور کی فکر لا حق ہونا : 29 75
82 د ینی مسائل 30 1
83 ( پانی کا بیان ) 30 82
84 مقید پانی : 30 82
85 جانوروںکے جھوٹے کا بیان : 31 82
86 پانی کے استعمال کے احکام : 32 82
87 عالمی خبریں 34 1
88 یورپی ممالک میںہزاروںافراد کا فلسطینیوں کی حمایت میں مارچ 34 87
89 سویڈن اور ناروے میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم 34 87
90 ضربت علیھم الذلتہ والمسکنتہ 35 87
91 اسرائیل ٹوٹ رہا ہے 35 87
92 اب تمہاری خیر نہیں واپس آ جائو، فرانسیسی یہودیوں کو اسرائیل کا مشورہ 36 87
93 طبل جنگ 36 87
94 گھٹنے ٹک گئے !! 36 87
95 برطانوی حکومت نے مقبوضہ کشمیر اور افغانستان 37 87
96 کشمیر میں دینی مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں :بھارتی حکام 37 87
97 ہندوستان کی مغلیہ سلطنت اور عیسائی 38 1
98 اثرکرے نہ کرے سُن تولے فریاد میری 45 1
99 ''ربٰو'' کی حرمت قرآن و سنت کی روشنی میں 49 1
100 بینکاری نظام کی تاریخ : 49 99
101 وفیات 56 1
102 بقیہ ربا کی حرمت 57 99
103 تحریک احمدیت 58 1
104 غداروں کا خاندان : 58 103
105 تقریظ وتنقید 63 1
106 بقیہ اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد 66 98
Flag Counter