ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
|
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھول سے )ظہرکی پانچ رکعتیں پڑھادیں۔اس پر آپ سے عرض کیا گیا کہ کیا ظہر کی نماز کی رکعتیں بڑھا دی گئیں ہیں ۔آپ نے پوچھا کیا ہوا ؟لوگوں نے عرض کیا (آج آپ نے پانچ رکعتیں ادا فرمائی ہیں ۔یہ سن کر آپ نے ایک رکعت اور پڑھی اور تشہد پڑھ کر سلام کے بعد سہو کے لیے دو سجدے کیے (یہ ا س وقت کاواقعہ ہے جب نماز میں با ت کرنے کی اجازت تھی )۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یہ فرمایا میں (اگرچہ اللہ کا رسول ہوں لیکن اصل کے اعتبارسے )ایک بشرہوں جیسے تم بشر ہو اور (مجھ کو بھی بشری عوارض پیش آتے ہیں جومیری رسالت اور بر گزیدگی کے منافی نہیں ہیں اور بشری عوارض کی وجہ سے میں )بھول جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو اس لیے جب میں بھول جائوں تو مجھے یاد دلادیاکرو۔ انبیاء علیہم السلام کو بھی بشری عوارض پیش آتے تھے : (١) بھول چوک : اوپر کی حدیث میں انما انا بشر انسی کما تنسون یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی ایک بشر ہوں جیسے تم بشر ہو اور بھول بھی جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو ۔ عن عائشة ان رجلا قام من اللیل فقرأ فرفع صوتہ بالقرآن فلما اصبح قال رسول اللّٰہ ۖ یرحم اللّٰہ فلا نا کاین من آ یة اذ کرنیھااللیلةکنت قد اسقطتھا (ابو دائود ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ایک صاحب (یعنی عبداللہ بن یزید)رات کے وقت اُٹھے اور اونچی آواز سے قرآن پڑھا۔(ان کی آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کے کان میںبھی آئی۔جب صبح ہوئی تو رسول اللہ علیہ وسلم نے فریایا اللہ فلاں (یعنی عبداللہ بن یزید )پر رحم فرمائے کتنی ہی آیتیں ہیں جو آج رات انہوں نے مجھے یاد دلا دیں جو مجھے مستحضر نہیں رہی تھیں ۔ فائدہ : عارضی طور پر مستحضر نہ رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان کو بالکل بھول ہی گئے تھے جو کوشش کے باوجود بھی یا دنہ آرہی ہوں بلکہ وقتی طورپر توجہ نہ ہونے کے باعث جب وہ کان میں پڑیںتو ایسے معلوم ہوا گویا بھولی ہوئی تھیںجو یاددلا دیں۔