ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
|
جناب منظور احمد بُڈھوی صاحب قسط : ٢ ڈیرہ اسماعیل خان ''ربٰو'' کی حرمت قرآن و سنت کی روشنی میں سودی نظام کو پروان چڑھانے اور اس نظام کو غریب اور پسماندہ ممالک پر مسلط کرنے کے لیے بینکاری سرمایہ داری، اشتراکی نظام اور گلو بلا ئزیشن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اب ہم قدرے بسط سے ہر ایک صنف کا جائزہ لیں گے اور اس بات کو معلوم کریں گے کہ استعماری قوتوں نے کس طرح ملت اسلامیہ کے معاشی نظام کو تہس و نہس کیا ہے۔آئیے ذرا پہلے بینکاری نظام کا جائزہ لیں ۔ بینکاری نظام کی تاریخ : شروع شروع میں لوگ اپنی دولت سونے کی شکل میں جمع کرتے، حفاظت کے لیے یہ سونا سنار لوگوں کے پاس جمع کر دیتے تھے۔سنار لوگوںکو سونے کے عوض رسیدیں جاری کردیتے تھے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سونے کے بجائے انہی جاری کردہ رسیدوں پر کاروبار شروع ہوگیا۔آخر کا ر بات بایں جا رسید ان رسید وں نے وہی حیثیت اختیار کر لی جو آج کل نوٹ کی ہے ۔کاروبار کی تمام نوعیت ان رسیدوں پر موقوف ہوگئی یعنی کا روبار ان رسیدوں پررواں دواں ہوگیا۔لالچ اور حرص کے مد نظر سنار لوگوں نے یہ چال بازی اپنائی کہ لوگوں کا امانت شدہ سونا سود پر چلانا شروع کردیا۔اس سے سنارلوگ دوگنافائدہ اٹھا رہے تھے ۔ایک طرف امانت رکھنے کا معاوضہ رنگے ہاتھوں وصول کر تے دوسری طرف سود کی رقم سے لوگوں سے دوگنی ر قم و صول کرتے رہتے تھے ۔ پھران سناروں نے خباثت کا مزید قدم آگے بڑھایا اپنی پاس رکھی ہوئی امانتوں کی بیشمارجعلی رسیدیں بناکر کاغذی سکے کی حیثیت سے چلانا شروع کردیں تاکہ لوگوں سے مزید سود کی رقم وصول کی جائے۔ نتیجہ بایں جارسید کہ تمام تر دولت اور کاروبار پر ان لوگوں نے مکمل طور پر اپناتسلط جمالیااور معاشرہ کے تمام طبقے سناروںکے قرض اورسود در سودکے شکنجے میںایسے پھنس گئے کہ عمر بھر سودی کاروبار سے نکلنا ان لوگوں کے لیے دشوار ہوگیا۔ایک دن ایسا آیا کہ ان سناروں نے مہاجنوں اورساہوکاروں کا کلی طور پر روپ دھار لیا ۔یہ اس زمانہ کی بات ہے جب دنیا میں صنعتی ،تجارتی ،سیاسی اور تعلیمی میدانوں میں ترقی شروع ہوچکی تھی ۔اس ترقی کی وجہ سے مزید سرمایہ کی ضرورت