ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
|
قسط : ١٤ فہم ِحدیث (حضر ت مو لانا مفتی ڈاکٹرعبدالواحد صاحب)کسی مذہب سماوی سے تعلق ہونے کے باوجود جو لوگ انبیا ء علیہم السلام اور ان کی تعلیمات کے متعلق کج فہمی میں مبتلا ہیں ان کو ہمیشہ سے یہ مغالطہ رہاہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کا تعلق صرف ایک ایسی غیر محسوس حیات کے ساتھ وابستہ ہے جس کے وجود میں بھی یہ کج فہم لوگ بہت سے شکوک و شبہات رکھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک گویا مذہبی تعلیمات کا تعق اگر ہے تو صرف قبر ،حشر و نشر اور مابعد الموت زندگی کے مسائل کی حد تک ہے دینوی نظم و نسق کے ساتھ ا س کا کوئی محکم تعلق ثابت نہیں ۔ دوسری طرف عالم غیب اور اس کے علوم سے چونکہ یہ مادی عقول بالکل خالی ہوتی ہیں اس لیے وہ انبیاء علیہم السلام اور ان کی تعلیمات کے لیے کوئی بلند مقام تجویز کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ لیکن حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ اصل حقیقت یوں بیان فرماتے ہیں : ''اگر تم نبی اور اس کے خواص جاننا چاہتے ہو تو یوں سمجھو کہ حیات انسانی کے نظم و نسق کے لیے جن جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ بیک وقت نبی کی ذات میں تمام انسانوں سے بڑھ کر پیدا فرمائی جاتی ہیں ۔ (١) وہ حاکم کی طرح ہوتا ہے جس کی قوت عاقلہ اور عاملہ کے سایہ کے نیچے اہل قلم بھی ،بڑے بڑے جرنیل اور سیاست دان بھی، کاشتکار اور تاجر بھی غرض تمام عالم اپنی اپنی زندگی کے مطابق تربیت حاصل کرتاہے اور ہر ہر شعبہ کا نظام اس کے اقوال و افعال کے دم سے قائم رہتا ہے ۔ (٢) وہ ایک حکیم و مدبر بھی ہوتا ہے جو علم اخلاق وتدبیر منزل اور سیاست مدن کا ماہر ہو اور یہ تمام صفات اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہوں حتی کہ اس کے حرکات و سکنات سے یہ علوم ٹپکتے نظر آ رہے ہوں۔ (٣) وہ مرشد کامل بھی ہوتا ہے جو کرامات و خوارق کا مصدر بنا ہوا ہو اور طاعات و عبادا ت کے ان تمام طریقوں سے آگاہ ہو جو تہذیب نفس کے لیے ضروری ہیں اور ان علوم فقہ کا ماہر ہو جن سے انسانوں پر ملکوت کے خفیہ اسرار روشن ہوتے ہیں اور اسی طرح اعمال جوارح اور اذکار لسانی کے علیحدہ علیحدہ تمام خواص سے پورا پورا آشنا ہو ۔ اللہ کے ہر حکم کو پورا کرنا اس کی شان بن چکی ہو اور اس کی فطرت کو عالم بالاسے وہ مناسبت حاصل ہو کہ علوم الہیہ اوریقین واطمینان کی نعمت اس کے قلب پر بہہ رہی ہو ''۔ (ترجمان السنة ٣ /١١٥)