ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
|
بہت بڑی تعدادان کی اسلام میں داخل ہوگئی بہت تھوڑے سے رہ گئے وہ بھی پھرمسلمان ہوگئے دل سے ہوں یا زبانی بہرحال ہوگئے اوربہت سے لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ہم ایسے ہی مسلمان ہوئے ۔بعد میں سچ مچ اسلام ہمارے دلوں میں آیا اس وقت تو غلبے کی وجہ سے ہوگئے۔ مکہ مکرمہ کی حیثیت ایسے تھی جیسی سب سے بڑی جگہ کی ہوتی ہے ویسے بھی قرآن پاک میں آیاہے ''ام القری'' ہے تو اس پر قبضہ ہوگیا تو گو یا سب جگہ ہو گیا تو اس کے بعد جب یہ (حضرت عباس ) آئے ہیں مدینہ منورہ میںتو ایک جگہ سے مال آیا تو انہوں نے کہا کہ جناب ہمیں یہ دیجیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دیدی کہ لے لو انہوں نے اپنا کپڑا پیسوں سے بھر لیادرہموں سے چاندی کاسکہ جو تھا اور پھر اُٹھا نے لگے ، اُٹھانے لگے تو نہ اُٹھا سکے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کسی سے کہیے کہ وہ اٹھو اکر رکھو ادے میرے اوپر آپ نے فرمایا نہیں پھر کہنے لگے اچھا آپ اٹھا کے رکھوا دیجیے، یہ رشتے داری کی بات ہے ،نبی ہونے کی حیثیت سے تو بہت بڑا مقام تھا اور رشتے داری کی حیثیت سے ایک طرح کارشتہ بننا تھا۔اس حیثیت سے انہوں نے کہا کہ آپ اُٹھوا دیجیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی منع کر دیا تو پھر انہوں نے اس میں سے کچھ کم کیے پھر اُٹھانے لگے پھر نہیں اُٹھا سکے پھر اسی طرح ہوا بالآخر اتنے کم کیے کہ خود اٹھاسکے خود اُٹھاکر پھر چلے گئے اور جب تک نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے رہے۔ صورتاً حرص نہ کہ حقیقتاً : حدیث شریف میں ایک جملہ آتاہے عجباً من حرصہ کہ ان کی حرص سے تعجب فرما رہے تھے اب اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مزاج میں لالچ تھاحرص تھی حالانکہ یہ بات نہیں ہے بلکہ ضرورت تھی ان کو قرض ادا کرنا تھاشکل ایسی بن گئی اس کی جیسے حرص کی شکل ہوتی ہے حقیقت یہ نہیں تھی کہ حرص ہو لالچ ہو بخل ہو کوئی خرابی ایسی نہیں تھی۔ جو حریص ہوگا لالچی ہو گا وہ تو بخیل ہوگا ۔ اس کے بعد جناب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کوئی دو سال اور رہی ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد ان کا کچھ کاروبار ہو گیا حالات ٹھیک ہو گئے توپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکٰوة وغیرہ کی وصولی کے لیے آدمی بھیجے، انہوں نے آکر شکایت کی کہ تین حضرات ایسے ہیں جن سے ہمیںشکایت ہے ایک تو ابن جمیل ،دوسرے حضرت خالد اور تیسر ے حضرت عباس رضی اللہ عنہماکہ انہوں نے نہیں دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرتم خالد سے مانگتے ہو تو انکم تظلمون خالدًا خالدپرتم زیادتی کرتے ہو کیونکہ انہوں نے تو اپنی سواری وغیرہ یہ سب کے سب فی سبیل اللہ کر رکھے ہیں