ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
|
تو ایک طرح سے ساتھی ہوئے اور بالکل بچپن میں ساتھ رہے ۔اس وقت سے پھر ساری عمر جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں رہے ساتھ رہے ایسے جیسے رشتہ دار رہتے ہیں ۔اسلام لانے کا توثبوت نہیں ہے کہ وہ اسلام لے آئے تھے۔ وہ مسلمان تو ہوئے ہیں فتح مکہ کے موقع پر تویہ عرصہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی اس وقت سے لے کر جب تک مکہ مکرمہ فتح ہوا یعنی سن آٹھ میں ،یہ آٹھ سال کا عرصہ جو ہے یہ الگ رہے ہیں ورنہ ساری عمر ساتھ رہے ۔مزاج بھی پوری طرح جانتے تھے ایک چیز حدیث شریف میں آتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ واپس آگئے تو وہاں کہیں سے مال آیا( جزیہ وصول ہو کر آیا )تو اس میں سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے طلب کیا کہ مجھے دیجیے اس واسطے کہ میں نے اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل جو بھیجے تھے ابن ابی طالب کے ان کا بھی میں نے فدیہ دیاتھا فادیتُ نفسی وفادیتُ عقیلا تو ان لوگوں کا فدیہ میں نے دیا اور اپنا دیا اور پھر میں اس میں مقروض ہوگیا۔ مکہ کی ا قتصادی بد حالی : کاروبا رکا حال یہ ہوگیا تھا کہ مکہ مکرمہ کا جو گزاراتھا وہ تجارت پر تھا ایک تجارت کرتے تھے لوگ شام کی طرف گرمیوں میں دوسرا سفر ان کا ہوتا تھا سردیوں میںیمن کی طرف ۔ یمن کا راستہ تو کھلا ہوا تھا لیکن شام کی طرف جانے کے لیے انہیں مدینہ شریف سے گزرکے جانا ہوتا تھا لہٰذا وہ راستہ بند تھا تو تجارت بند ہو گئی آمدنی بند ہو گئی حالات میں بڑا فرق پڑا اقتصادی بدحالی آگئی ۔ کفار کی طر ف سے صلح کی ایک وجہ : اسی و جہ سے٦ ہجری میں جب رسول کریم علیہ الصلٰوة والسلام عمرے کی نیت سے گئے تو حدیبیہ میں صلح کرلی تھی کہ جانے کا راستہ تو کھلے گا تجار ت تو کھلے گی رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کے مدینہ منورہ آنے کے بعد بدر کی لڑائی ہوئی۔بدر کی لڑائی میں حضرت عقیل بھی قید ہو گئے اورحضرت عبا س بھی قید ہوگئے اورانہوں نے فدیہ دیا۔ اقتصادی ضرب ، ایک درہم بھی نہ چھوڑا جائے : صحابہ کرام نے کہاکہ ہم ان کا فدیہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا تدعون منہ درہما ٢ ایک درہم بھی نہ چھوڑنا،وصول کرو پورا فدیہ وصول کیا ۔ اور انہوں نے کہیں سے کرکراکے ادا کر دیا اس کے بعد پریشان رہے بد حالی جاری رہی دو سال اور گزر گئے مکہ مکرمہ فتح ہو گیا ۔جب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو مکہ والے مسلمان ہوگئے ٢ بخاری شریف ج ١ ص ٤٢٨