ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
|
یعنی جو کچھ ان کے پاس ہے خدا کی راہ میں ہر وقت لگا ہی رہتا ہے توان سے سوال کرنا مانگنا یہ غلط بات ہے یعنی ان کے پاس گنجائش ہی نہیں ہوگی تو واجب ہی نہیںادراعہ واعتدہ فی سبیل اللّٰہ ٣ انہوں نے اپنی زرہیںاور سامان ِجنگ سب خدا کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ ایک اور آدمی ابن جمیل کا نام لیا تو اس کاواقعہ یہ ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمادی تھی اور اس کے پاس بہت مال ہوگیا تھا اس نے جو نہیں دیاتوگویا اس نے ٹلایا وہ دے سکتا تھا اور دینا چاہیے تھا اس کو، اس پرارشاد فرمایا ماینقم ابن جمیل الا ان اغنا ہ اللّٰہ ورسولہ٤ اللہ اوررسول کی وجہ سے وہ مستغنی ہو گیا ۔انہوں نے اسے مستغنی کر دیا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے وہ مستغنی ہوا ہے توپھر اس بات کی وجہ سے وہ دل میں ہماری طرف سے برائی رکھنے لگاتو آپ نے اس کے بارے میں اچھے کلمات نہیں فرمائے۔ پیشگی زکٰوة : تیسرے حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ نے فرمایا عم رسول اللّٰہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں توان کے ذمے زکٰوةبھی ہے اور اتنی ہی اور بھی ہے یعنی زکٰوة بھی دیں اور اس کے ساتھ ساتھ اور بھی دیں ،پیشگی بھی دیدیں زکٰوة۔زکٰوة پیشگی بھی ہو جاتی ہے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے تو انہوں نے پیشگی دے رکھی تھی۔ یہ ان لوگوں کو پتہ نہیں تھاجو زکٰوة وصول کرنے گئے۔ اب یہ بات تو کہیں بھی ثابت نہیںہورہی کہ ان میں کسی قسم کا بخل ہو حرص ہو ۔ایک حدیث جو ایسی آئی بھی ہے کہ آپ انہیں دیکھتے ہی رہے حتی کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے عجباً من حرصہ ان کے حرص پرتعجب فرماتے رہے بظاہران کلمات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حریص تھے لیکن ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ بات یہ تھی کہ ضرورت مند تھے۔ اب ضرورت مند اگر طلب کرتا ہے بقدر ضرورت چیز تو مشابہت ہوجاتی ہے شکلًا ایسے لگتا ہے کہ جیسے حرص کر رہا ہو حقیقتًا یہ حرص نہیں ہوتی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک دفعہ ایسے ہوا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو عبدالمطلب ابن ربیعہ ہیں و ہ کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے ان کے چہرے سے محسوس کیا کہ ا نہیں کسی بات پرغصہ آیا ہوا ہے ۔ دریافت فرمایا مااغضبکتو یہ جواب دینے لگے یا ر سول صلی اللہ علیہ وسلم مالنا ولقریشیہ ہمارا اور قریش کا ایسا کیا معاملہ ہے ۔ایسی کونسی بات ہو گئی ہے کہ ان کا حال ہمارے ساتھ یہ ہے کہ جب یہ آپس میں ملتے ہیں تلا قوا بوجوہ مبشرہیہ خوش روئی کے ساتھ ملتے ہیں خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ان کا وہ ا ندازنہیں ہوتا یعنی روکھے پن کی گویا ایک طرح کی شکایت کی اور اس بات کا انہیں احساس اتناہوا کہ غصہ آیا او ر اسی حالات ٣ مشکٰوة شریف ج١ ص ١٥٦ ٤ ایضاً