ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
|
قسط : ١ ہندوستان کی مغلیہ سلطنت اور عیسائی ( سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب ) عیسائیوں نے ہندوستان کے مسلمانوں او ر ان کے حکمرانوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس پر بھی ایک سر سری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ،ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں نے یہاں جس مذہبی رواداری کے ساتھ حکومت کی اس کی تاریخ ہم تین جلدوں میں لکھ چکے ہیں ،ان تفصیلات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ،مگر انگریزوں نے ان کی نرمی ، لینت اور فراخ دلی سے جس طرح فائدہ اُٹھایا ،اور پھر یہاں اقتدار پانے کے بعد مسلمانوں پرجو مظالم کیے ان کے کچھ موٹے موٹے واقعات سرسری طور پر یہاں پر قلم بند کیے جاتے ہیں ، ان عیسائی حکمرانوں نے جو یہاں پورے ہندوستان پر ستم ڈھائے اور جو اقتصادی لو ٹ کھسوٹ کی ،اس کی پوری تفصیلات تو کے ،ڈی باسو کی رائز آف دی کرسچین پاوران انڈیا کی پانچ جلدوں اور رمیش چناردت کی ہندوستان کی اقتصادی تاریخ میں ملے گی ،ہم یہاں صرف ان واقعات کی طرف اشارہ کریں گے جن کا تعلق یہاں کے مسلمانوںسے رہا ۔ اکبرنے اپنے دربار میں عیسائیوں کو آنے کی اجازت دے رکھی تھی اور اس کے عبادت خانہ میں جو مباحث ہوتے تھے ان میں عیسائی پادری بھی شریک ہوتے ،وہ دربار میں انجیل بھی لاتے ا کبر نے ا س کا ترجمہ فارسی میں بھی کرایا،یہ پادری عقیدہ ٔ تثلیث کے حق ہونے پر دلیلیں پیش کرتے اور نصرانیت کو سچا مذہب قرار دینے کی کوشش کرتے ،بعض اوقات اپنی حد سے بڑھ کرنعوذ باللہ دجال ملعون اور حضرت خیرالنبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں مشابہت بھی دکھاتے ،اکبر ان کو خاموشی سے سن لیتا ،ان پادریوں نے دربار میں کھلم کھلاعیسائیت کی ترویج بھی کرنی شروع کردی۔ شہزادہ مراد نے ان سے کچھ سبق بھی پڑھے ،شیخ ابو ا لفضل کو جب انجیل کے ترجمہ کا حکم دیا گیا تو اس نے بسم اللہ کے بجائے یہ لکھا : ''اے نامی وے ژژ وکرستو'' یعنی اے وہ ذات کہ تو بڑا مہربان اور بہت کچھ بخشنے والا ہے شیخ فیضی نے اس کا دوسرا مصرع یہ کہا : ''سبحانک لا سواک یا ہو'' ان پادریوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہونے لگی تھی کہ اکبر نے عیسائی مذہب قبول کرلیا ،لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ