Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002

اكستان

50 - 67
بڑھ گی۔ صورت احوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہاجنوں اور ساہو کاروں نے آگے بڑھ کر ساری معیشت پرمکمل طور پر قبضہ کرلیا۔ اب ان مہاجنوں نے اپنی انجمنیںقائم کر لیں او رانفرادی طورپر سودی کاروبار کرنے کے بجائے یہ خطرناک جونکیں اجتماعی اور منظم طورپر عوام کا خون چوسنے لگیں ۔ بینکنگ کی اس نئی تنظیم نے پرانے مالی اقتصادی قاعدے اور ضابطے ایسے بگاڑ کر رکھ دیے کہ ہمیشہ کے لیے معاشرہ کی نظروں میں ان کی افادیت کو ختم کر دیا۔ چند غیر مرئی حکومتوں کی پالیسی درآمد و بر آمد ،اندرونی و بیرونی معاملات، صنعت و تجارت، سیاست و حکومت غرض دنیا کی ہر چیزپر مسلط ہو گئے۔قانون ، پولیس ، فو ج سودخور کی حفاظت کرنے لگی ،یہ تھی بینکا ری کی بھیانک تاریخی روداد ۔
	اغیار نے ملت اسلامیہ کو ہر دور میں معاشی ، معاشرتی ،غرض ہر قسم کانقصان پہنچایا ۔ملت اسلامیہ کے معاشی نظام کو نا کام کرنے کے لیے اُنہوں نے کبھی سرمایہ دارانہ نظام مسلط کیا ،کبھی اشتراکی نظام کے فوائد بتاکر ملت اسلامیہ کی ہر سطح پر بیخ کنی کی ہے تاکہ مسلمان ہمیشہ کے لیے اقتصادی طور پر غلام بن کر رہیں۔لیکن افسوس صد افسوس مسلمانوں نے اپنے پاس الٰہی تعلیمات ہوتے ہوئے بھی اغیار کی تقلید کی اور اس میں اپنی معاشی کامیابی اور نجات سمجھنے لگے ۔از روئے مضمون یہ امر مناسب معلوم ہوتاہے کہ اشتراکی نظام،  سرما یہ دارانہ نظام اور اسلامی نظام معیشت کی وضاحت ہو جائے ۔
سرما یہ داری نظام  :
	سرما یہ داری نظام کو دوسرے لفظوں میں تہذیب جدید کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ اس نظریہ کے پیش نظر دولت پرستی، دوسروں کی حق تلفی ،کمزور کو دبانا ،خود غرضی اور ذاتی نفع کے لیے سب کچھ کر گزرنے کا داعیہ ہے۔ سرمایہ دار کے پاس چونکہ وسائل او ر ذرائع موجود ہیں لہٰذاسے حق حاصل ہے کہ جو چاہے کرے ۔ کسی فرد کی کیا مجال کہ سرمایہ دارکو اس کی بُری روش سے منع کرے ۔سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار کو یہ قانونی طور پر حق حاصل ہوتا ہے کہ حکومت قانون اور پولیس اس کی پشت پناہی کرے ۔اس نظام میں سود اور بینکنگ کو پروان چڑھایا جاتا ہے گویا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سود اور بینکنگ ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔اس نظام میں عوام اور محنت کش طبقہ کوہر قسم کی خوشی اور آرام سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔
اشتراکی نظام  :

 
	سرمایہ دارانہ نظام کے بعد اشتراکی نظام نے جنم لیا۔ اوائل میں اشتراکی نظام کے دو مرحلے تھے۔سوشلزم اور کمیونزم ۔سوشلزم نے سرمایہ دارانہ نظام کی مذمت کرتے ہوئے یہ نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا کہ تمام مسائل اور مشکلات   کاحل صرف قومی ملکیت میں مضمر ہے ہر قسم کی ذاتی ملکیت کو ختم کر دیا جائے او رمعاشی نظام کو اجتماعی اور قومی ملکیت پر استوار کیا جائے۔ ابتدائی مراحل میں سودی نظام کوختم کر دیا گیا مگر جلد ہی اس پر نظرثانی کر کے دوبارہ اس میں سود شامل 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
61 حرف آغاز 5 1
62 درس حدیث 7 1
63 مکہ کی ا قتصادی بد حالی : 8 62
64 کفار کی طر ف سے صلح کی ایک وجہ : 8 62
65 اقتصادی ضرب ، ایک درہم بھی نہ چھوڑا جائے : 8 62
66 صورتاً حرص نہ کہ حقیقتاً : 9 62
67 پیشگی زکٰوة : 10 62
68 وسیلہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ : 11 62
69 فتنوںکی روک : 11 62
70 قربِ قیامت کی بعض علاماتاحادیثِ نبویہ کی روشنی میں 13 1
71 فہم ِحدیث 23 1
72 (١) حکومت و سیاست : 24 71
73 (٢) علم وحکمت : 24 71
74 (٣) رشدو ہدایت : 24 71
75 انبیاء علیہم السلام کو بھی بشری عوارض پیش آتے تھے : 25 71
76 (١) بھول چوک : 25 75
77 (٢) بھوک کی شدت محسوس کرنا : 26 75
78 (٣) بچھو کا کاٹنا : 26 75
79 (٤) جادو کا اثر ہو جانا : 26 75
80 (٥) زہر کے اثر سے متاثر ہونا : 28 75
81 دینوی امور کی فکر لا حق ہونا : 29 75
82 د ینی مسائل 30 1
83 ( پانی کا بیان ) 30 82
84 مقید پانی : 30 82
85 جانوروںکے جھوٹے کا بیان : 31 82
86 پانی کے استعمال کے احکام : 32 82
87 عالمی خبریں 34 1
88 یورپی ممالک میںہزاروںافراد کا فلسطینیوں کی حمایت میں مارچ 34 87
89 سویڈن اور ناروے میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم 34 87
90 ضربت علیھم الذلتہ والمسکنتہ 35 87
91 اسرائیل ٹوٹ رہا ہے 35 87
92 اب تمہاری خیر نہیں واپس آ جائو، فرانسیسی یہودیوں کو اسرائیل کا مشورہ 36 87
93 طبل جنگ 36 87
94 گھٹنے ٹک گئے !! 36 87
95 برطانوی حکومت نے مقبوضہ کشمیر اور افغانستان 37 87
96 کشمیر میں دینی مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں :بھارتی حکام 37 87
97 ہندوستان کی مغلیہ سلطنت اور عیسائی 38 1
98 اثرکرے نہ کرے سُن تولے فریاد میری 45 1
99 ''ربٰو'' کی حرمت قرآن و سنت کی روشنی میں 49 1
100 بینکاری نظام کی تاریخ : 49 99
101 وفیات 56 1
102 بقیہ ربا کی حرمت 57 99
103 تحریک احمدیت 58 1
104 غداروں کا خاندان : 58 103
105 تقریظ وتنقید 63 1
106 بقیہ اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد 66 98
Flag Counter