ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
|
ویبعث الیہ بعث من الشام فیخسف بھم بالبیداء بین مکة والمدینة۔ شام سے ان کے مقابلہ کے لیے لشکر بھیجا جائے گا ۔ اس لشکر کو مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان واقع بیداء میں دھنسا دیا جائے گا۔ اسی مضمون کی د وسری روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہمانے دریافت فرمایا : یا رسول اللّٰہ کیف بمن کان کارھا قال یخسف بھم ولکن یبعث یوم القیامة علی نیتہ۔ (ابو دائودکتاب المہدی) اے اللہ کے رسول اس لشکر والوں کے ساتھ جو لوگ بمجبوری (مثلًا جبری بھرتی سے)آگئے ہوں گے ان کا کیا ہو گا ! ارشاد فرمایا وہ بھی د ھنسا دئیے جائیں گے لیکن ہر شخص قیامت کے دن اپنی نیت کے مطابق اُٹھایا جائے گا ۔ یعنی جو لوگ جبرًا ساتھ لیے گئے ہوں گے ان کا حشر ان کی نیتوں کے مطابق ہوگا ۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی پہلی والی روایت میں ہے کہ : فاذا رأی الناس ذلک اتاہ ابدال الشام وعصائب اہل العراق فیبا یعونہ ۔ جب لوگ یہ دیکھیں گے تو شام کے ابدال (اولیا ء کرام )اور عراق کے (بہترین لوگ ) گروہ در گروہ ان کے پاس آئیں گے اور ان سے بیعت ہوں گے ۔ ان کی مدد کرنے والے اہل ماورا ء النہر بھی ہوں گے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرما یا: یخرج رجل من وراء النھریقال لہ الحارث حراث علی مقدمة رجل یقال لہ منصوریوطی او یمکن لآل محمد کما مکنت قریش لرسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وجب علی کل مومن نصرہ اوقال اجابتہ۔ (ابو دائودکتاب المہدی) ایک شخص ماوراء النہر سے چلے گا اسے حارث کہا جاتا ہوگا ۔وہ حراث (یعنی کاشت کرنے والا)ہوگا۔اس کے لشکر کے اگلے حصہ مقدمة الجیش پرمامور شخص کو منصورکہا جاتا ہوگا ۔وہ اٰل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے مضبوطی سے جمنے کے لیے مؤثر طرح کام کرے گا جیسے ( قبائل قریش نے اسلام قبول کرنے کے بعد )جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( دین کے )لیے استحکام کا کام کیا ۔ ہر ایمان والے شخص پراس کی مدد واجب ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ماوراء النہریعنی دریائے سیحون کے پارعلاقوں میں اسلام نہایت جوش سے