ماہنامہ انوار مدینہ لاہورمئی 2002 |
اكستان |
اورایسا واقعةً ہو چکا ہے ۔دنیا بھر کی سب مسلم سلطنتیں تباہ ہو گئیں اور عیسائی چھاگئے اس پر یہ سوال ہو سکتا ہے : کہ یہ خرابیاںتو ہماری قوم میں باقی تھیں پھر عیسائیوں کا غلبہ کیسے ہٹا ،تواس کا جواب یہ ہے کہ عیسائیوں کے مظالم زیادہ ہوگئے ۔انہوں نے پوری دنیا کھلونا بنالیا اور غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا۔اور ظلم ایسی چیز ہے جو اللہ تعالی کو بہت نا پسند ہے ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت ہدایت فرمائی تھی ۔ واتق دعوة المظلوم فانہ لیس بینھاوبین اللّٰہ حجاب۔ (بخاری شریف ج١ کتاب الزکٰوة) اور مظلوم کی بد دعا ء سے بچتے رہنا کیونکہ مظلوم کی دعاء اوراللہ کے د رمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا (یعنی نہایت سریع التاثیر ہوتی ہے)۔ عیسائیوں کے پوری دنیاپر چھا جانے کے بعد سمٹ جانے کی وجہ بظاہر یہی ہے کہ ان کے مظالم بڑھ گئے تھے انہوں نے اقوام عالم کو محکوم ہی نہیں بلکہ انہیں غلام بھی بنا لیا تھا ۔الجزائر،ویٹ نام ،کوریا وغیرہ سب ان کے کھلونے بنے رہے ہیںاور اسرائیل کا نا سور ان ہی کاپیدا کردہ ہے ۔ اگرچہ جس دور سے ہم گزررہے ہیں وہ بھی دَورِفتن ہی ہے ۔ طرح طرح کے فرقے نمو دار ہورہے ہیں ۔اتباعِ سلف کے بجائے اپنی خواہش پر چلنے کا رجحان بڑھتاجارہاہے ۔جو شخص تھوڑا بہت علم حاصل کرلیتا ہے وہ تنقید و جرح کی وادیٔ پُرخار کی راہ لیتا ہے۔ صحابہ کرام اور اسلاف کو چھوڑکر اپنی شخصیت سازی میں لگ جاتا ہے یہی وہ بیماری ہے جو سب فتنوں ، بدعات اوراختلافات کی جڑ ہے ۔کثرتِ نشرو اشاعت نے اسے مرضِ متعدی بنا دیا ہے ۔ ایک غلطی اور بدعت کی اصلاح نہیں ہونے پاتی کہ کوئی اور نئی بدعت کسی اور رنگ میں ظاہر ہو جاتی ہے یا کوئی اورنیا فرقہ باطلہ ابھرنے لگتا ہے آخراس دور کا منتہٰی کہاں ہو گا۔ دورِفتن سے احادیث میں ایسا زمانہ بھی مراد ہوتا ہے جس میں ایسی گڑ بڑ ہو کہ عقلمند سے عقلمند شخص بھی حیران رہ جائے ۔ایک پہلو کی اصلاح ہونے سے پہلے دوسرے پہلو کی خرابی پیدا ہو جائے یا ایک پہلو کی اصلاح میںدوسرے پہلو کی خرابی پیدا ہونے کا احتمال نظر آئے ۔اس دور میں بھی یہی حالت جارہی ہے ۔کوئی واضح راستہ کسی کے سامنے نہیں ہے اور کوئی راہ بے خار نہیں رہی۔ لیکن احادیث مقدسہ کی روشنی میں یوں لگتا ہے کہ رفتہ رفتہ مسلمان سنبھلتے ہی چلے جائیں گے کیونکہ انہیںعروج کی طرف جانا ہے ۔تقدیراتِ الٰہیہ ظہور میں آنی ہیں ۔مسلمان اگر خود نہ سنبھلے تو حالات سنبھلنے پرمجبور کردیں گے ۔ یہ ایک بہترین فاتح قوم بننے والی ہے اگرچہ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ پوری طرح خود کفیل نہ ہو پائیں گے ۔ درمیان ہی میں دنیا