لَتَوَلَّوْا وَ ہُمْ مُعْرِضُوْنَ۔(الانفال/۲۲-۲۳)
بلاشبہ اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ،اور ا گر اللہ کے علم میں ان کے اندر کوئی بھلائی ہوتی تو وہ ان کو سننے کی توفیق دے دیتا،لیکن اب جب کہ ان میں بھلائی بھی نہیں ہے، اگر ان کو سننے کی توفیق دے بھی دے تو وہ منھ موڑ کر بھاگ جائیں گے۔
معلوم ہوا کہ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق اسی کے حصہ میں آتی ہے جس کے دل میں حق کی طلب ہو، اگر کسی کے دل میں حق کی طلب ہی نہ ہو اور وہ غفلت کی حالت میں زندگی بسر کررہا ہو اور نفس کا غلام بن چکا ہو، تووہ حق سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے، اور سمجھ بھی لے تو اسے پلٹنے اور عمل خیر کی توفیق نہیں ملتی، بلکہ وہ بدستور اپنی مجرمانہ غفلتوں میں مبتلا رہتا ہے ۔
اسی حقیقت کو اگلی آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
وَاَعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہِ۔ (الانفال/۲۴)
جان لو کہ اللہ انسان اوراس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے ۔
یعنی جس کے دل میں حق کی طلب ہوتی ہے اگر اسے گناہ کا تقاضا ہو، مگر وہ طالب حق کی طرح اللہ سے طالب مدد ہوجائے تواللہ ا سکے اورگناہ کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اوراس کے قدم گناہ کی راہ پر چلنے سے محفوظ ہوجاتے ہیں ، اور جس کے دل میں حق کی طلب ہی نہ ہو اور وہ اللہ کی طرف رجوع بھی نہ ہوتا ہو وہ توفیق خیر سے محروم اور گناہوں میں غرق ہوتا چلا جاتا ہے ۔