جو شراب پیتا ہے اس کے اندر سے ایمان کا نور نکل جاتا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے :
اِذَا تَنَاوَلَ الْعَبْدُ کَأسَ الْخَمْرِ بِیَدِہِ، نَاشَدَہُ اْلِایْمَانُ بِاللّٰہِ:لَاتُدْخِلْہُ عَلَیَّ، فَانِّیِ لَا اَسْتَقِرُّ اَنَا وَ ہُوَفِیْ وِعَائٍ وَاحِدٍ، فَاِنْ اَبَیْ وَشَرِبَہُ نَفَرَ الْاِیْمَانُ مِنْہُ نَفْرَۃً لَنْ یَعُوْدَ اِلَیْہِ اَرْبَعِیْنَ صَبَاحاً، فَاِنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَسَلَبَہُ مِنْ عَقْلِہِ شَیْئاً لاَ یَعُوْدُ اِلَیْہِ اَبَداً۔(کنزالعمال:۵/۱۴۱بحوالہ دیلمی بروایت ابی ہریرۃ)
جب بندہ شراب کا جام اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اس کے اندر کاایمان اسے قسم دیتا ہے : اسے میرے پاس مت لاؤ، میں اور یہ جام شراب ایک جگہ نہیں رہ سکتے، پھر اگر بندہ نہیں مانتا اور شراب پی لیتا ہے تو ایمان اس سے اس طرح بدکتا ہے کہ چالیس دن تک واپس نہیں لوٹتا، پھر اگر بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، شراب سے اس کی عقل کا ایک حصہ سلب ہوجاتا ہے جو کبھی اسے دوبارہ حاصل نہیں ہوپاتا۔
چنانچہ جو شخص شراب کو جائز سمجھ کر پیتا ہے وہ واقعی ایمان سے خارج ہوجاتا ہے، اور جو حرام سمجھتا ہے پھر بھی پیتا ہے وہ ایمان کے کمال سے محروم ہوجاتا ہے، اور من جانب اللہ نور ایمان اس سے سلب کرلیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طاعات سے اس کی طبیعت اچاٹ اور معاصی کی طرف راغب ہوجاتی ہے، پھر اس کا تعارف صاحب ایمان اورنیک انسانوں کے بجائے مے نوش او رشرابی کے لقب سے ہونے لگتا ہے، اور پھر اگر مے نوشی کی یہ عادت لت بن جائے توانجام کارایمان و یقین سے محرومی