ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
بیوی تھیں فرماتی ہیں کہ جنابِ رسول اللہ ۖ نے ایک مرتبہ مجھ سے ارشاد فرمایا کہ یَاعَائِشَةُ اِیَّاکِ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ اے عائشہ ! جو چھوٹے چھوٹے اور حقیر گناہ معلوم ہوتے ہیں اُن سے بھی بچتی رہو فَاِنَّ لَھَا مِنَ اللّٰہِ طَالِبًا ١ کیونکہ ان چھوٹے گناہوں پر بھی اللہ کی طرف سے گرفت ہو سکتی ہے جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک عورت نے بلی کو محبوس کر رکھا تھا اُس کو نہ کھلاتی اور نہ پلاتی آخرکار وہ بلی مر گئی تو خدا تعالیٰ نے اِسی گناہ کے سبب اسے دوزح میں ڈال دیا۔ بلی جو ایک حیوان ہے اُس پر ظلم کرنے سے وہ عورت جہنم میں ڈالی گئی تو جو لوگ انسانوں کو ستاتے ہیں یا قتل کرتے ہیں اُن کا کیا حال ہوگا ؟ یہ یاد رکھو کہ جو معمولی چیز کو معمولی گناہ سمجھ کے کرتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ معمولی گناہ سے کیا حرج ہوتا ہے تو اُس کو اُس گناہ کی عادت پڑ جائے گی اور پھر اسی معمولی گناہ کو ہمیشہ کرنے سے رفتہ رفتہ یہ حالت ہو جائے گی کہ پھر بڑے گناہ کو بھی معمولی ہی سمجھے گااس لیے چھوٹے گناہوں سے بھی احتراز کرنا لازم ہے ،اگر بڑے بڑے گناہوں کے کرنے کا خدشہ نہ بھی ہو تب بھی چھوٹے چھوٹے اور صغیرہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی نیکی اللہ کو اتنی پسند آجائے کہ اس پر انسان کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں اور بظاہر وہ چھوٹی سی نیکی ہو، اسی طرح اس کے بر عکس یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی عمل جو آپ کی نظر میں معمولی گناہ ہو خدا کے نزدیک بڑا ہو کیونکہ اعمال کا وزن خود عمل کرنے والا نہیں کر سکتا۔ آپ روز مرہ دیکھتے ہیں کہ بیٹا کہتا ہے کہ میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی کہ والد صاحب خفا ہوں معمولی سی بات تھی، اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ بیٹے کی اپنی نظر میں وہ معمولی بات تھی مگر باپ کی نظر میں وہ ایسی تھی کہ اِس پر وہ خفا ہوگیا بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ باپ مارتا پیٹتا ہے حتی کہ گھر سے نکال دیتا ہے۔ ایک جلیل القدر صحابی جنابِ رسول اللہ ۖ کی کوئی بات نقل کررہے تھے، بیٹے نے اس کی ناپسندیدگی ظاہر کی ،صحابی نے قسم کھائی کہ میں تجھ سے کبھی نہ بولوں گا اور واقعی پھر کبھی نہ بولے ! ! ------------------------------١ مشکوة شریف کتاب الرقاق رقم الحدیث ٥٣٥٦