دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
نحو: {ربِّ إني وہنَ العظمُ مني، واشْتَعلَ الرأسُ شیباً}[مریم]، أي کبرتُ۔ (جواہر البلاغۃ:۱۴۱) اِطناب: کسی معنیٰ کو تقویت وتاکید کے فائدے کی غرض سے درمیانی طبقے میں متعارَف عبارت سے زائد الفاظ میں تعبیر کرنا، (یعنی حد سے زیادہ تفصیل کرنا)، جیسے: مثالِ مذکور{ربِّ إني وہنَ العظمُ مني، واشتعلَ الرأسُ شیباً}، اے میرے پرور دگار! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی اور سر میں بالوں کی سفیدی پھیل پڑی۔(۱) المُسَاواتُ: ہيَ تأْدیۃُ المعنَی المرادِ بعبارۃٍ مساویۃٍ لہُ، بأن تکون المعاني بقدرِ الألفاظِ؛ والألفاظُ بقدرِ المعاني، کقولہِ تعالیٰ: {وما تقدِّموا لأنفسِکمْ من خیرٍ تجدُوہُ عندَ اللّٰہِ}[البقرۃ]۔ (جواہر البلاغۃ:۱۴۶) مساوات: معنیٔ مرادی کو (عبارتِ متعارفہ کے) مساوی عبارت سے ادا کرنا، بہ ایں طور کہ معانی بہ قدرِ الفاظ ہوں ، اور الفاظ بہ قدرِ معانی ہوں ، جیسے {وماتقدِّموا لأنفسِکمْ من خیرٍ تجدُوہُ عندَ اللّٰہِ} اور جو نیک کام بھی اپنی (۱) فائدہ: یہ زیادتی کسی فائدے کے لیے ہو، جیساکہ حضرت زکریا ں اﷲسے یہ کہنا چاہتے تھے کہ: مَیں بوڑھا ہو گیا ہوں ، مجھے ایک لڑکا دیجیے۔ اِس مضمون کو اداکرنے کے لیے اگر صرف ’’رب إنِّي کبرتُ‘‘ کہہ دیتے تو بھی کام چل جاتا؛ مگر اِس معنیٰ کے مقابلے میں اِس کی ترجمانی کے لیے لائے جانے والے الفاظ زیادہ ہیں : {رب إني وھن العظم مني واشتعل الرأس شیبا ولم أکن بدعائک رب شقیا}۔ ہاں ! اگر یہ زیادتی بے فائدہ ہے تو زیادتی کے غیر معین ہونے کی صورت میں اس کو ’’تطویل‘‘ کہتے ہیں ، اور متعین ہونے کی صورت میں ’’حشو‘‘ کہتے ہیں ۔ تفصیل اوپر اطناب کے حاشے میں ملاحظہ فرمائیں ۔