دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
ملاحظہ: (۱) اِن دونوں میں لفظاً اور حقیقتاً دونوں اعتبار سے فرق ہے: لفظی فرق ’سین‘ کی حرکت سے ظاہر ہے، اور معنوی فرق یہ ہے کہ: اول ظرف ہے اور ثانی اسم ہے۔ (۲)جہاں لفظِ وسط کی جگہ لفظِ’’بین‘‘ رکھ سکتے ہو تو وہ بالکل درمیانی معین حصہ ہوتا ہے، ورنہ دو کناروں کے درمیان والا کوئی بھی غیر معین حصہ مراد ہوتا ہے؛ نیز ساکن الاوسط کا ترجَمہ ’’درمیان‘‘ سے ہوتا ہے، اور متحرک الاوسط کا ترجَمہ ’’معتدِل‘‘ سے کیا جاتا ہے، جیسے باری تعالیٰ کا فرمان: {وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ أُمّۃً وَّسَطاً}، اور اِسی طرح کیا ہم نے تم کو امتِ معتدِل۔ (رحمۃ اللہ الواسعۃ۱/۷۳) لفظِ وسط کا بہترین قاعدۂ کلیہ ملاحظہ فرمائیں : إِذَا سُکِّنَ تُحُرِّکَ وإِذَا تُحُرِّک سُکِّنَ۔ (انعام الباری ۲/ ۵۱۶) یعنی جب ’’وسْط‘‘ کو بالسکون پڑھیں تو دو کناروں کے درمیان کا کوئی غیر معین حصہ مراد ہوگا، اور ’’وسَط‘‘ بالفتح پڑھیں تو وسطِ حقیقی (بالکل بیچ والا معین حصہ) مراد ہوگا۔ الوسیلۃ: مَا یُتقرَّبُ بہِ إِلَی الغَیرِ وَحَصلَ الوُصوْلُ إلیْہِ۔ (دستور۳/ ۵۲۷) وسیلہ: وہ واسطہ ہے جس سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے اور غیر سے قربت حاصل ہو۔ الوضع: فيْ اللُّغۃِ: جَعلُ اللَّفظِ بِإزائِ المَعنیٰ(وفيْ اِصطلاحِ أَصحابِ العَرَبیَّۃِ):تَخصِیْصُ شَيئٍ بِشَيئٍ بِحَیثُ مَتیٰ أُطلِقَ أَوْ أُحِسَّ الشَّيئُ الأوَّلُ فُھِمَ مِنہٗ الشَّيئُ الثَّانيْ۔ (دستور۳/۵۳۱)