دستور الطلباء |
لمی و فن |
الوُجوْدُ الحَقیْقِيُّ: وَھوَ حَقیْقتُہُ المَوجُوْدَۃُ فيْ نَفْسِھا (أيْ فيْ الخَارِجِ)۔(دستور العلماء۳/۳۰۹) وجودِ حقیقی: چیز کا خارج میں اپنی ذات (حقیقت) کے ساتھ پایا جانا، (جیسے: ذات زید کا وجود)۔ الوُجوْدُ الذِّھْنِيُّ: وَھوَ وُجوْدُہُ الظِّلِّيُّ المِثَالِيُّ المَوْجُوْدُ فيْ الذِّھْنِ۔(دستور العلماء۳/۳۰۹) وجودِ ذہنی: چیز کا ابتدائی درجے میں بہ طور نُمونے کے صرف ذہن وخیال میں پایا جانا،(جیسے: کوئی مضمون تحریر کرنے سے پہلے ایک ذہنی خاکہ تیار کیا جاتا ہے، جس کو بعد میں لفظوں یا تحریر سے تعبیر کیا جاتاہے، یہاں پرذہنی خاکے کو ’’وجودِ ذہنی‘‘ کہاجاتا ہے، اور لفظوں سے تعبیر کو ’’وجودِ لفظی‘‘ اور تحریر سے تعبیر کرنے کو ’’وجودِ کتابی‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے)۔ الوُجوْدُ اللَّفْظِيُّ: وَھوَ وُجوْدُ لفْظِہِ الدَّالِّ عَلَی الوُجُوْدِ الخَارِجِيِّ والمِثالِ الذِّھْنِيِّ۔(دستور العلماء۳/۳۰۹) وجودِ لفظی: چیز کے وجودِ حقیقی اور وجودِ ذہنی پر دلالت کرنے والے لفظ کا پایا جانا۔ الوُجوْدُ الکِتَابِيُّ: وَھوَ وُجُوْدُ النُّقُوْشِ الدَّالَّۃِ عَلَی اللَّفْظِ الدَّالِّ عَلَی الشَّيْئِ۔(دستور العلماء۳/۳۰۹) وجودِ کتابی: چیز کے وجودِ حقیقی ووجودِ ذہنی پر دلالت کرنے والے نقوش کا پایا جانا۔