دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
میں مہارتِ تامہ پیدا ہوجائے گی، یہ ممارَست ’’ملکہ‘‘ کہلاتا ہے)۔(۱) (۱)ملحوظہ: ملکہ اور حال کی مذکورہ دو تعریفوں میں فرق یہ ہے کہ: اول تعریف کے مطابق حال وملکہ دونوں کیفیتِ نفسانیہ کی قسمیں ہیں اور کیفیتِ نفسانیہ صفتِ راسخہ کو کہتے ہیں ، گویا اس تعریف کے مطابق حال میں بھی صفتِ راسخہ ہوتی ہے؛ جب کے دوسری تعریف کے مطابق -جو مشہور بھی ہے-حال نفس کی صفتِ طاریہ ہوتی ہے نہ کہ راسخہ۔ یہی بات ابن سینا نے ’’مقولات‘‘ میں بیان کی ہے: إن الکیفیات التي یتعلق بالأنفس منہا مایکون راسخاً في المتکیّف بہا رسوخاً لایزول أو یعسر زوالہ، وبالجملۃ لایسہل زوالہ، ویسمی ’’ملکۃ‘‘؛ ومنہا ما لایکون راسخاً بل یکون مذعنا للزوال سہل الانتقال فیسمی ’’حالاً‘‘۔ (موسوعۃ مصطلحات المنطق:۱۰۰۰)