دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
الکنْیۃُ: باب العین کے تحت ’’علَم‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الکَیفیَّۃُ النفسَانیَّۃُ: صفۃٌ راسِخۃٌ للنَّفس،ِ فإنَّ للنَّفسِ تَحصُلُ ھَیئۃٌ، أي صفۃ بسبب فعلٍ منَ الأفعالِ، وَیُقالُ لتِلکَ الھَیئَۃِ عندَ الحکماء کیفیۃٌ نَفسانَّۃٌ؛ ثُمَّ ھيَ تُسَمّٰی ’’حالَۃً‘‘ مَا دامتْ سریعَۃَ الزَّوالِ، فإِذا صارتْ بطیئۃَ الزَّوالِ وَحصَلَ لَھا الرسوخُ بالتَّکرار، وَمُمارسَۃِ النَّفسِ بِھا تُسمّٰی ’’مَلَکَۃً‘‘۔ (دستور۳/۳۸۰) واعلَمْ أنَّ الکَیْفِیَّاتِ النَّفْسَانِیَّۃَ إنْ کانَتْ راسِخَۃً فيْ مَوْضُوْعِہَا أيْ مُسْتَحْکَمَۃً فیْہِ بِحَیْثُ لایَزُوْلُ عَنْہٗ أصْلاً أوْ یَعْسُرُ زَوَالُہَا سُمِّیَتْ مَلَکَۃً، وإنْ لَمْ تَکُنْ راسِخَۃً فیْہِ سُمِّیَتْ حالاً لقَبُوْلِہِ التَّغَیِیْرَ والزَّوَالَ بِسُہُوْلَۃٍ۔ (کشاف: ۴،۲۴) کیفیتِ نفسانیہ: انسان کی صفتِ راسخہ کو کہتے ہیں ؛ کیوں کہ کسی کام کے کرنے سے نفس میں ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو حُکَما ’’کیفیتِ نفسانیہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، اس کی دو قسمیں ہیں : ملکہ اور حال۔ مَلکہ: نفس کی وہ کیفیت ہے جو بہ وجہِ مُزاوَلت ومُمارَست دیرپا ہو، چاہے وہ بالکل زائل نہ ہو یا اس کا زائل ہونا دشوار ہو، (جس کے ذریعے متعیَّنہ کام کی مہارت اور سلیقہ پیدا ہو جائے)۔ حال: نفس کی وہ کیفیت ہے جو بہ وجہِ عدمِ ممارست تغیُّر پذیر اور جلد زائل ہونے والی ہو، (جیسے: فنِ کتابت ابتدائی مرحلے میں ’’حال‘‘ کہلاتا ہے، اگر ممارَست چھوٹ جائے تو وہ کیفیت ختم ہوجائے گی؛ لیکن بار بار کتابت سے فن