دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
غنی: (آسودہ حال، دَولت مند) وہ آدمی ہے جس کے پاس اسبابِ معیشت (مال ودولت، حَشم وخَدم) کی بہُتات ہو، جس کی وجہ سے (بذاتِ خود) کار وبار کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ عیسیٰ بن ابانؒ فرماتے ہیں : فقیر وہ آدمی ہے جو اپنی کمائی سے کھاتا ہو، اور اُس کے پاس اناج کا ذخیرہ نہ ہو؛ پس جس کے پاس غلہ (اناج کا ذخیرہ)ہو؛ مگر اُس کے نفقہ سے زائد نہ ہو تو وہ ’’وسط الحال‘‘ ہے؛ اور جس کے پاس اُس سے بھی زیادہ مال ہو تو وہ ’’غنی‘‘ ہے۔ فکر: باب النون کے تحت ’’نظر‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ فی البدیہ: باب الشین کے تحت ’’شعر‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔(۱) (۱)فی نفسہٖ، بنفسہٖ، لنفسہٖ: وُجود کی اِن تینوں قِسموں کے درمیان فرق حسبِ ذیل ہے: في نفسہٖ: کی نسبت اُس شیٔ کی طرف کی جاتی ہے جو شیٔ اپنے وجود میں فارض کے فرض (تسلیم کرنے والے کا تسلیم کرنے) کی طرف محتاج نہ ہو، اگرچہ محل کی طرف محتاج ہو، جیسے: سفید کپڑا، کہ اِس میں سفیدی کا وجود فارض کے فرض کی طرف محتاج نہیں ہے؛ لیکن اُس کا وجود محل یعنی کپڑے کی طرف محتاج ہے، بہ ایں طور کہ کپڑے کا وجود منتفی ہوتے ہی سفیدی کا وجود بھی ختم ہو جائے گا، جو بہ واسطۂ کپڑا نمودار ہوا ہے۔ بنفسہٖ: کی نسبت اُس شیٔ کی طرف کی جاتی ہے جو نہ فارض کے فرض کی طرف محتاج ہو، نہ محل کی طرف محتاج ہو،(ہاں !فاعل یعنی موجِد کا محتاج ہو)، جیسے: حیوان۔ لنفسہٖ:کی نسبت اُس شیٔ کی طرف ہوتی ہے جو نہ فارض کے فرض کی طرف محتاج ہو، نہ محل کی طرف اور نہ فاعل کی طرف، جیسے: وجودِ باری تعالیٰ نہ فارض، نہ محل اور نہ فاعل کی طرف محتاج ہے۔ (مآرب الطلبہ: ۱۹۲)