دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
إلَی الجَنَّۃ۔ ہذا حدیث حسن۔ [ترمذي،۲؍۹۳]اِس روایت میں حدثنا محمود بن غیلان سے عن أبي ہریرۃ تک سند حدیث ہے اور من سلک سے إلی الجنۃ تک متن حدیث ہے۔ السُّؤال: فيْ اللُّغۃِ: طَلبُ الأَدنَی مِن الأَعْلیٰ۔ وَفيْ العُرفِ: طلبُ کشفِ الحَقائقِ وَالدَّقائقِ عَلیٰ سَبیلِ الاِسْتفادَۃِ؛ لاعَلیٰ سبیلِ الاِمتحانِ، فہوَ کالمُناظرَۃ۔ (دستور العلماء۲/۲۲۳) سوال: لغوی معنیٰ: کم قدر آدمی کا بلند رُتبہ سے دریافت کرنا، مطالبہ کرنا۔ اصطلاحی معنیٰ: بہ غرضِ استفادہ کسی چیز کے حقائق اور باریکیاں حل کرنے کی فرمائش کرنا، نہ کہ بہ غرضِ آزمائش۔ گویا سوال،مناظرے کے ہم معنیٰ ہے؛ کیوں کہ مناظرہ کہتے ہیں کسی چیز کی حقیقت وماہیت کے واسطے باہم فکر کرنا۔ السہْوُ: ہُوَ غَفلَۃُ القَلبِ عَنِ الشَّيْئِ، بِحَیثُ یَتنبَّہُ بِأَدنیٰ تَنبِیہٍ۔ (کشاف اصطلاحات الفنون) سہو:ذہن کا کسی چیز سے ایسا بے خبر ہونا کہ معمولی تنبُّہ(خبرداری)سے متنبہ ہوجائے۔ النِّسْیَانُ: غَیبَۃُ الشَّيئِ عَنِ القَلبِ بِحَیثُ یَحتَاجُ إِلیٰ تَحصِیلِ جَدِیدٍ۔(کشاف اصطلاحات الفنون) نسیان: ذہن سے کسی چیز کا ایسا غائب اور مَحو ہوجانا کہ از سرِ نَو حصول کا محتاج ہو۔ ملحوظہ: اِدراک میں چیز کا علم واستحضار ہوتا ہے، پس اگر روزے دار جان