دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
عنْہا لِذَاتِہا مَطلوبٌ نَظَريٌّ۔ وإِطلاقہٗ بِہٰذا المَعنیٰ قلیلٌ۔ وَقدْ یُطلقُ مرادفاً للحُجۃِ، فہوَ مَعلومٌ تَصدیقِيٌّ مُوصِلٌ إلیٰ مَجہولٍ تَصدِیقِيٍّ۔ وَما یُذکرُ لإزالۃِ الخَفائِ فِي البَدِیہيِّ یُسمّٰی ’’تَنبِیہاً‘‘۔ وقدْ یُقالُ: الدَّلیلُ عَلَی مَا یَلزمُ مِن العلمِ بہِ العِلمُ بِشيئٍ آخرَ وہوَ المَدلولُ؛ وَالمرادُ بالعِلمِ بِشيئٍ آخرَ العِلمُ الیقینيُّ؛ لأنَّ ما یَلزمُ من العِلمِ بہِ الظنُّ بِشيئٍ آخرَ لایُسمَّی دَلیلاً؛ بلْ ’’أَمارَۃً‘‘۔(دستور العلماء۲/۱۲۶) دلیل: لغوی معنیٰ: سیدھی راہ دکھا نے والا اور آلۂ راہ نُمائی۔ اصطلاح میں چند معانی کے لیے مستعمل ہے: برہان، قِیاس، حجت، تنبیہ اور اَمارت۔ دلیل بہ معنیٰ برہان: وہ قِیاس ہے جو دو یقینی مقدّمات سے مرکب ہو، (جیسے: العالم متغیر، وکل متغیر حادث، فالعالم حادث)۔ دلیل بہ معنیٰ قِیاس: دو(یا چند) قضیوں سے مرکب وہ حجت ہے جس کی وجہ سے بالذات مطلوبِ نظری(نتیجہ)کو تسلیم کرنا لازم آئے،(جیسے: سعید مجتھد، وکل مجتھد ناجح، سعید ناجح)۔ ملاحظہ: مذکورہ معنیٰ پر دلیل کا اطلاق بہت کم ہوتاہے۔ دلیل بہ معنیٰ حجت: وہ معلوم تصدیق جو نامعلوم تصدیق تک پہنچانے والی ہو۔ تنبیہ: اس دلیل کو کہتے ہیں جو بدیہی چیز کی پوشیدگی دُور کرنے (محض آگاہی وخبرداری) کے لیے ہو۔ دلیل بہ معنیٰ:دال، دلیل کا اطلاق اُس دال پر بھی ہو تا ہے جس کے