دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
پر یااُس کی دلیل پر اعتراض وارد ہوتا ہے، یاوہ دعویٰ قابلِ تحقیق ہو۔ مسئلہ: وہ دعویٰ ہے جس پر برہان قائم کیا جائے، وہ معاملہ جس کو غور و فکر کرکے حل کیا جا ئے۔ مبحث: موضوعِ بحث،موضوعِ مطالعہ، بحث، تحقیق۔ تفصیل باب المیم کے تحت ’’مسئلہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ نتیجہ: دعویٰ کو کہتے ہیں اِس حیثیت سے کہ، وہ دلیل سے حاصل کیا جا تا ہے۔ ملحوظہ:نتیجہ اور مدعی کے درمیان فرق باب النون کے تحت ’’نتیجہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ (۱) قاعدہ وقانون: دعویٰ کو کہتے ہیں اِس حیثیت سے کہ، وہ جزئیات پر منطبق ہونے والا امر کلی ہے،(جیسے: نحات کا قاعدہ:کل فاعل مرفوع ہر اس جگہ پر منطبق ہوگا جہاں کوئی اسم ترکیب میں فاعل بنتا ہو)۔ ملاحظہ: قاعدہ، قاعدۂ مطَّردہ، قانون اور ضابطہ کی تعریفات باب القاف کے تحت ’’قاعدہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الدلیل: فيْ اللغۃِ: المُرشدُ، وَما بہِ الإِرشادُ۔ وَفيْ الاِصطلاحِ: قدْ یُطلقُ مُرادِفاً للبُرہانِ، فہوَ القِیاسُ المُرکّبُ منْ مُقدَّمتَینِ یَقینِیَّتَینِ۔ وَقدْ یُطلقُ مُرادفاً للقِیاسِ، فہوَ حُجَّۃٌ مؤلفَۃٌ منْ قَضیتَیْنِ یَلزَمُ (۱)فائدہ : اِس کو ایک مثال کے ذریعے اِس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ، نَصَرَ زَیْدٌ میں زید مرفوع ہے، یہ ہمارا مدعیٰ ہے ،اِس کو ثابت کرنے کے لیے ہم نے دلیل دی کہ:’’زید فاعل ہے ‘‘(صغریٰ)جو امر جزئی ہے ،’’وکل فاعل مرفوع‘‘ یعنی ہر فاعل مرفوع ہوتا ہے (کبریٰ)، جو امر کلی (قاعدہ) ہے، یہاں دعویٰ کی تکمیل ہوئی، اب نتیجہ نکلا کہ: زید مرفوع ہے۔